ایکنا نیوز- فوق البشر شخصیت کی زندگی پر ایک نظر(علی ابن ابی طالب)؛ دوستوں نے بھی اور دشمنوں نے بھی ان کے فضائل چھپا دیئے مگر
ها عَليٌ بَشرٌ كَیفَ بَشَر
مبارک ہو اس مرد عظیم مولود کعبہ حضرت امیر کی ولادت باسعادت، جو فوق البشر ہیں ایسے کہ جن کے فضائل ـ جبران خلیل جبران کے بقول ـ دوستوں نے خوف و تقیہ کی رو سے اور دشمنوں نے بغض و عناد کی وجہ سے چھپائے رکھے مگر پھر بھی یہ فضائل پوری دنیا پر چھا گئے۔
مبارک ہو مولود کعبہ کی ولادت ، جو مجموعہ اضداد تھے زاہد تھے اور پہلوان بھی؛ مہربان تھے دشمنان اسلام کے لئے اللہ کا قہر و غضب بھی؛ عابد تھے اور سیاستدان بھی؛ تارک دنیا تھے اور دنیا کے راہنما بھی۔
ابوالحسن علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف ابن قصی بن کلاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سگے چچا زاد بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد بارہ ائمہ طاہرین علیہم السلام میں امام اول تھے وہی جو اسلام و فضائل میں سب سے مقدم تر، جن کا علم سب سے زیادہ یہاں تک کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم و حکمت کے شہر ٹہرے تو یہ اس شہر کا دروازہ ٹہرے، سب سے زیادہ شریف تر، زاہد تر، عامل تر عبادت گزار تر اور شوق جہاد کا سب سے شدیدتر تھا۔ وہ چودہ معصومین علیہم السلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں گوکہ اہل سنت کے علماء کا خیال ہے کہ وہ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔
ابن ابی الحدید المعتزلی شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں:
قال اميرالمؤمنين عليه السلام: ...لاقولن ما لم أقله لاحد قبل هذا اليوم ، سألته مرة أن يدعو لى بالمغفرة فقال : أفعل ، ثم قام فصلى ، فلما رفع يده للدعاء استمعت عليه ، فإذا هو قائل : اللهم بحق على عندك اغفر لعلى ، فقلت : يا رسول الله ، ما هذا ؟ فقال : أواحد أكرم منك عليه فاستشفع به إليه.
ترجمہ: میں آج تمہیں ایسی بات کہہ دوں گا جو میں اس سے پہلے کسی کو نہیں سنائی؛ ایک دن میں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جگہ بیٹھے تھے۔
میں نے عرض کیا: آپ دعا فرمائیں کہ "خداوند متعال علی کو بخشے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو تازہ کیا اور دو رکعت نماز ادا کی اور بارگاہ الہی کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دغا کرنے لگے۔ آپ (ص) دعا کررہے تھے اور میں سن رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا:
ترجمہ: خداوندا! علی کے صدقے علی کو بخش دے۔
میں نے رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! یہ کیسی دعا تھی تو آپ صلی اللہ علیہ ص آلہ و سلم نے فرمایا: کاش آپ خدا سے میرے لئے اپنا واسطہ دے کر مغفرت طلب فرماتے!
فرمایا! علی جان! کیا ہے کوئی تمہارے سوا جو اللہ کی بارگام میں تم سے بہتر ہو اور میں اس کے واسطے بارگاہ خداوندی میں دعا مانگوں۔
شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج ۲۰، ص ۳۱۵ و ۳۱۶٫۔
محدث کبیر شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے تاہم اس کا آخری جملہ اور علی (ع) کے سوال کا جواب انھوں نے یوں نقل کیا ہے: "وهل أجد مَن هو أحب الى الله منه لأستشفع به الى الله". کیا میں پاسکوں کا تم جیسا کوئی جو اللہ کے ہاں تم سے زیادہ عزیز و محترم ہو اور میں خدا کی بارگاہ میں اس کا واسطہ دے کر دعا کروں؟
مفاتيح الجنان ( الباقيات الصالحات ـ الهامش ـ ) ص 372۔
13 رجب کو خانہ کعبہ میں ولادت پانے والے علی بن ابیطالب علیہ السلام رسول اللہ کے بعد سب سے اعلی ہيں یہ وہ اعتراف ہے جو بہت سوں نے کیا اور علی (ع) نے اپنے علم و دانش و عبادت و جہاد و خدا پرستی اور رسول اللہ اور اسلام پر اپنی جان نچھاور کرکے یہ حقیقت ناقابل انکار بنا دی ہے۔ آپ رسول اللہ (ص) کے وصی اور ولی مطلق ہیں اور آپ اور آپ کے گیارہ فرزندوں کی امامت کی وصایت اور ولایت و خلافت پر عقیدہ اسلام کے اصول دین یا بعض لوگوں کے ہاں اصول مذہب شیعہ میں سے ہے گو کہ اگر ایک طرف سے معاندین اور مبغضین اور بعض مقصرین نے آپ کے بہت سے فضائل کو دوسروں سے منصوب کیا ہے یا پھر ان کا سرے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف سے بعض معتقدین نے بھی آپ کے فضائل کی کثرت و عظمت اور کرامات و خوارق العادات کو دیکھ کر اعتدال کا راستہ چھوڑ کر افراط کی راہ اپنائی ہے اور انھوں نے شیعہ عقائد سے ماوراء اپنے لئے الگ سے عقائد مرتب کئے ہوئے ہیں جن کا مذہب امامیہ جعفریہ اثنا عشریہ سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ یہ لوگ ابتدائے طلوع اسلام سے غُلات (غالی کی جمع) سے مشہور تھے اور آج بھی غالی یا نصیری وغیرہ کہلاتے ہیں گوکہ اہل سنت کے مختلف مذاہب کے اندر بھی غلات موجود ہيں گو کہ ان کے غلو کا موضوع اور محمول کچھ اور ہے اور جن لوگوں کے بارے میں وہ غلو میں مبتلا ہوئے ہيں وہ دوسرے افراد ہیں۔
غالی چاہے جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں اور جس کسی کے بارے میں بھی غلو کررہے ہوں حق و ہدایت کے راستے سے منحرف ہيں اور انہیں اہل بدعت و ضلال ہی کہا جاسکتا ہے۔
لقب ابو تراب
غالب کل غالب اور مظہرالعجائب مولائے کائنات حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی کنیت "ابوالحسن" تھی اور اسی نام سے پکارے جاتے تھے لیکن آپ کی ایک کنیت "ابوتراب" بھی ہے جو لقب کہلائے تو بہتر ہے کیونکہ کنیت فرزند کے اعتبار سے ہوتی ہے جبکہ یہ مٹی کے اعتبار سے ہے اور وہ یوں کہ ایک روز آپ ع) مٹی پر سوئے ہوئے تھے اور جب رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو مٹی پر سوتے ہوئے دیکھا تو قریب جاکر آپ کو جگایا تو آپ کے پہلو پر گرد و خاک بیٹھی ہوئی تھی چنانچہ رسول اللہ (ص) نے محبت سے آپ کو لقب دیا "انت ابوتراب" آپ مٹی کے باپ ہیں"۔
سنی عالم دین شیخ علاء الدین سکتواری محاضرة الاوائل صفحہ 113 پر رقمطراز ہیں کہ سب سے پہلے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو ابوتراب کے نام سے موسوم کیا گیا اور یہ کنیت رسول اللہ نے اس وقت آپ کو دی جب آپ زمین پر سوئے ہوئے تھے اور آپ کا پہلو خاک آلود ہوگیا تھا پس رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اٹھو اے ابا تراب۔
شیخ عبدالحسین امینی رحمۃاللہ علیہ الغدیر کی جلد 6 ص 237 و 238 پر لکھتے ہيں کہ یہ محوبترین لقب تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سانسوں کی برکت سے علی علیہ السلام کے لئے کرامت کی صورت اختیار کرگیا جو قیامت تک کے حالات کو آپ کے لئے ظاہر کردیتا تھا۔
عبایۃ ابن ربعی کہتا ہے: میں نے عبداللہ بن عباس سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو ابوتراب کا لقب کیوں دیا تو انھوں نے کہا: اس لئے کہ علی علیہ السلام زمین کے مالک اور رسول اللہ (ص) کے بعد زمین اور اہل زمین پر اللہ کی حجت ہیں اور زمین کی بقاء اور اس کا سکون علی علیہ السلام کی وجہ سے ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ: جب قیامت کا دن ہوگا اور جب کفار اس پاداش اور جزا اور کرامت کو دیکھیں گے جو خداوند متعال نے شیعیان علی علیہ السلام کے لئے قرار دی ہے تو بول اٹھیں گے: اے کاش میں تراب (مٹی) ہوتا یعنی کاش میں شیعیان ابوتراب (علیہ السلام) میں سے ہوتا اور یہی ہیں اس آیت کے معنی وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا. (سورہ نبأ آیت 40)
علل الشرائع - الشيخ الصدوق - ج 1 - ص 156 .
علامہ مجلسى رحمۃ اللہ علیہ ابن عباس کے اس جملے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہيں:
ہوسکتا ہے کہ یہاں آیت کریمہ سے استناد امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے اس نام کے تعین اور عطائیگی کے کسی دوسرے سبب کو بیان کرنے کے عنوان سے ہو کیونکہ شیعیان علی علیہ السلام اپنے امام و پیشوا کے لئے بہت زیادہ مقام و منزلت کے قائل ہیں اور آپ کے فرامین کے لئے بہت زیادہ وقعت کے مائل ہیں اور ان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اسی اعتبار سے انہیں تراب کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ آیت میں اشارہ ہوا ہے، اور چونکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام ان کے مولا و آقا اور پیشوا اور حاکم ہیں چنانچہ آپ (ع) کو ابوتراب کا لقب عطا ہوا ہے۔
بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج 35 - ص 51 .
یہ کہ یہ لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کب اور کس زمانے میں علی علیہ السلام کو عطا کیا، متعدد روایات وارد ہوئی ہیں؛ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ لقب سنہ 2 ہجری کے ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی میں غزوة العشیرہ میں آپ کو عطا ہوا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس لقب کا تعلق ی"يوم التآخي" یا "یوم المؤاخات" (اور بھائی چارے کے دن) سے ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ لقب متعدد بار علی علیہ السلام کو عطا کیا ہو۔
تاب الغدير علامۀ اميني، ج 6 - ص 334 – 338۔
علی علیہ السلام کو یہ لقب بہت پسند تھا لیکن جس طرح امویوں نے آیات اور روایات کے معانی بدل دیئے اور متعدد روایات اور احادیث گڑھ دیں چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ اس لقب کو بھی معنوی لحاظ سے بگاڑنے کی کوشش کی اور اس کو صاحب عزت الہیہ کی عزت گھٹانے کا بہانہ قرار دینے کی کوشش کی جو آج 14 صدیاں گذرنے کے بعد بھی آپ کے لئے سرمایہ عزت ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام اور آپ کے محبین اور مبغضین
تاریخ و حدیث و تفسیر و کلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ علی علیہ السلام واحد شخصیت ہیں جن سے بہت زیادہ محبت کی گئی ہے اور واحد شخصیت ہيں جن سے بہت زیادہ دشمنی برتی گئی ہے اور ان دونوں حوالوں سے بھی امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی مثال آپ ہیں۔ اسلام میں کسی کے بھی اتنے شدید دشمن اور اپنے جان نثار دوست نہیں ہیں جتنے امیرالمؤمنین (ع) کے ہیں۔ کتنی جنگیں واقع ہوئی ہیں علی علیہ السلام کے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان کتنی لڑائیاں ہوئیں کتنی جانیں علی (ع) کی محبت میں قربان ہوئیں۔
جنگ خیبر میں جب مسلم کمانڈر یکے بعد دیگرے جاکر یہودیوں سے شکست کھا گئے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کل میں پرچم ایسے شخص کو دے رہا ہوں جو خدا اور رسول خدا (ص) سے محبت کرتا اور خدا اور رسول خدا (ص) بھی اس سے محبت کرتے ہيں وہ رک کر لڑنے والا اور نہ بھاگنے والا ہے اور اللہ تعالی کل اسی کے ذریعے ہمیں فتح عطا فرمائے گا اور یہی محبوب الہی اور محبوب رسول (ص) مغضوب بنی امیہ قرار پائے اور انکی تحریک پر عرصہ دراز تک منبر رسول (ص) پر بیٹھ کر درباری ائمۂ جمعہ نے معاذ اللہ آپ کے سب و لعن کو فروغ دیا لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ یہ تحریک جاری نہيں رہ سکی ہے اور آج منابر پر علی و آل علی (ع) پر درود و سلام نثار کیا جاتا ہے اور علی و آل علی (ع) کے دشمنوں پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔
علی (ع) کے دشمنوں کا حال یہ ہے کہ آج بھی آپ کے ماننے والوں کو پکڑا جاتا ہے تو ان کو تشدد کرکے قتل کیا جاتا ہے یا ان کا سر تن سے جدا کیا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کو مثلہ کیا جاتا ہے اور ان کے بدن کے ٹکڑے کئے جاتے ہيں اور اس طرح بغض علی علیہ السلام کا اظہار کیا جاتا ہے اور تفریط کی حضیض اور پستیوں تک پہنچنی کی کوششیں کی جاتی ہيں اور اگر دشمنان علی (ع) یہ سب نہ کرسکیں تو محبان علی (ع) کو کافر قرار دیتے ہيں اور دوسری طرف سے افراطیون ہیں جو کہہ رہے ہیں اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں جو انھوں نے اپنے بارے میں کبھی نہيں فرمایا یہ ساری دلیلیں بھی بتا رہی ہیں کہ علی (ع) رسول اللہ (ص) کے بعد دوسری بڑی شخصیت نہ ہوتے تو نہ دشمنیاں اتنی وسیع ہوتیں اور نہ ہی دوستوں کے کئے گروہ ہوتے۔ اگر آپ اتنے عظیم نہیں ہیں تو پھر "یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے"۔ غالب
امیرالمؤمنین علیہ السلام روایات کی روشنی میں
ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب (ج 7 ص 339) میں لکھا ہے کہ حنبلی مذہب کے پیشوا احمد بن حنبل کہتے ہیں: فضائل اور مناقب کے حوالے سے جتنی حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کسی بھی دوسرے صحابی کے بارے میں وارد نہيں ہوئی ہیں۔
ہم علی (ع) کا نام لیتے ہیں تو "علیہ السلام" کہنا نہيں بھولتے تو اہل سنت کے ہاں آپ کے نام کے بعد "کَرَّمَ اللهُ وَجهَهُ" ثبت کیا جاتا ہے اور جب سبب دریافت کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ (ع) نے کبھی ایک لمحہ بھر بھی بتوں کی پوجا نہیں کی۔
اقبال کہتے ہیں
مسلم اول شه مردان علی
عشق را سرمایه ی ایمان علی
از ولای دودمانش زنده ام
در جهان مثل گهر تابنده ام
یعنی :
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور مَردوں کے شاہ ہیں علی (ع)
عشق الہی کے لئے ایمان کا سرمایہ ہیں علی (ع)
میں جو زندہ ہوں تو علی (ع) کے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں
اور علی اور آل علی (ع) کی محبت ہی کی برکت سے پوری دنیا میں چمک رہا ہوں
[دیکھئے اقبال آج بھی چمک دمک رہے ہیں اور وجہ خود انھوں نے بیان کی ہے]۔
(اسرار خودی)
چنانچہ مؤمن اول اور مسلم اول علی (ع) ہیں جنہوں نے کبھی بت کی پوجا نہيں کی اور سب سے پہلے رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز ادا کی اور گھر میں بھی اور غار حرا میں بھی علی علیہ السلام کو آپ (ص) سے ملنے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے اور آپ (ع) کے ساتھ ایک بستر میں سونے اور آپ (ص) کی تعلیم و تریبت سے بہرہ مند ہونے کے حوالے سے بے رقیب تھے۔ اور خود فرماتے ہیں کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ (ص) کے درمیان اسرار کا تبادلہ ہوا کرتا تھا جیسا کہ شرح نهج البلاغه (ابن ابی الحدید، ج ۲۰، ص ۳۱۵ و ۳۱۶٫) میں مروی ہے۔
خلیل بن احمد فراہیدی دوسرے صحابہ کے ساتھ علی علیہ السلام کا موازنہ کراتے ہوئے لکھتے ہيں:
آپ (ع) کا اسلام سب پر مقدم تھا، اسلامی احکام پر آپ (ع) کا عمل سب سے زيادہ تھا، آپ کا شرف اور خاندان سب سے اونچا تھا، آپ (ع) زہد و پارسائی میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے اور آپ (ع) کا شوق جہاد سب سے بڑھ کر تھا۔
علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
"و الله لولا رجائی الشّهاده عند لقائی العدوّ لوقد حمّ لی لقاءه لقرّبت ركابی، ثمّ شخصت عنکم فلا اطلبكم ما اختلف جنوب و شمال".
ترجمہ: اللہ کی قسم! اگر دشمن کا سامنا کرتے ہوئے مجھے شہادت پانے کی امید نہ ہوتی تو میں اپنی سواری پر بیٹھ کر تم سے دور ہوجاتا اور کوچ کرجاتا اور جب تک جنوب اور شمال کی ہوائیں اڑتیں میں تمہاری تلاش میں کبھی نہ نکلتا۔
شرح نهج البلاغه ـ ابن ابی الحدید ج7، ص285، خطبه118۔
تاریخ ابن خطیب بغدادی (ج 6 ص 221) میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ قرآن کی 300 آیتیں علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ (ص 76) میں اور شبلنجی نے نور الابصار (ص 73) میں ابن عساکر سے اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی جتنی آیات کریمہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں کسی بھی دوسرے صحابی کی شان میں نازل نہيں ہوئیں۔ اور ابن عباس نے کہا ہے کہ قرآن کریم کی 300 آیتیں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
بشکریہ؛ erfan.ir