امریکی مسلمان رکن کانگریس یہودیوں سے معافی پر کیسے مجبور ہوئیں

IQNA

امریکی مسلمان رکن کانگریس یہودیوں سے معافی پر کیسے مجبور ہوئیں

16:53 - February 12, 2019
خبر کا کوڈ: 3505729
بین الاقوامی گروپ- انہیں جس انداز میں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا اس نے امریکی معاشرے میں آزادی اظہار کے دعوئوں کا پول کھول دیا ہے۔

ایکنا نیوز- امت نیوز کے مطابق امریکی کانگریس کی مسلمان رکن ایلھان عمر نے اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف اپنی حالیہ ٹوئیٹس پر معافی مانگ لی ہے۔ لیکن انہیں جس انداز میں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا اس نے امریکی معاشرے میں آزادی اظہار کے دعوئوں کا پول کھول دیا ہے۔

ایلھان عمر کے خلاف امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی یک زبان ہو گئیں۔

انہیں اسپیکر نینسی پیلوسی نے بلا کر جھاڑا اور سابق صدر کلنٹن کی بیٹی چیلسیا سمیت کئی لوگوں نے ان کے لتے لیے۔

ایلھان عمر کون ہیں؟

ایلھان عمر اور کانگریس کی دوسری مسلمان خاتون رکن راشدہ طالب نے اسرائیل کی نقاد ہیں۔ ایلھان نو عمری میں اپنے والد کے ہمراہ صومالیہ سے امریکہ آئی تھیں جبکہ امریکہ میں پیدا ہونے والی راشدہ طالب کے والد فلسطینی ہیں۔ دونوں کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور دنوں امریکی کانگریس کےایوان زیریں یعنی ایوان نمائندگان کی رکن ہیں۔

ایلھان کی عمر 37 برس ہے۔ وہ گذشتہ نومبر میں امریکی کانگریس کی رکن بنیں۔

ایلھان عمر ماضی میں اس بات کا اعلان بھی کر چکی ہیں کہ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کیلئے چلائی جانے والی تحریک بی ڈی ایس کی حامی ہیں۔

ان کے اسرائیل مخالف مؤقف پر ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کے قائد کیون میک کارتھی نے دھمکی دی تھی کہ اس بات پر انہیں سزا ہوسکتی ہے۔

یہودیوں اور پیسے میں تعلق کی بات کیوں کی

کیون میک کارتھی کی اس دھمکی پر اتوار کو صحافی و مصنف گرین والڈ نے ٹوئیٹ کی۔ انہوں نے لکھا کہ ’’کیون میک کارتھی نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کے خلاف تنقید پر راشدہ طلب اور ایلھان عمر کو سزا ملے گی۔ حیرت ہے کہ امریکی سیاسی رہنما ایک غیر ملک کے دفاع پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے آزادی اظہار کا گلا گھونٹا پڑے۔‘‘

ایلھان عمر نے اس ٹؤئیٹ پر لکھا، ’’یہ سب بنجمامن بے بی کی کرامات ہیں۔‘‘  امریکہ میں سو ڈالر کے نوٹ پر سابق صدر بنجمامین کی تصویر ہوتی ہے۔ ایلھان کا مطلب سادہ لفظوں میں یہ تھا کہ یہ پیسے کی چمک کا نتیجہ ہے۔

ٹوئٹر پر ہی جب ایلھان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں امریکی سیاستدانوں کو اسرائیل کی حمایت کے لیے کون رقم دے رہا ہے تو ایلھان عمر نے امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی(ایپیک) کا نام لیا۔

ایلھان کی جانب سے ایک جملے it’s all about the Benjamins Baby  اور ایک مختفف AIPAC  لکھنے سے امریکہ بھر میں طوفان آگیا۔

ان کے اس جملے اور ایک مخفف کو صہیونیت مخالفت ( antisemitism) قرار دے دیا گیا۔ ردعمل دینے والوں کا کہنا تھاکہ یہودیوں سے تعصب رکھنے والے افراد ہمیشہ رقم اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے رہے ہیں اور یہی کام ایلھان عمر نے کیا ہے۔

سب سے زیادہ مخالفت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے سامنے آئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک اعلامیہ جاری کرکے ایلھان عمر کے مؤقف کی مذمت کی۔ اس اعلامیے میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور دیگر رہنمائوں کے نام شامل تھے۔

ری پبلکن پارٹی کی جانب سے بھی ایلھان کے بیان کی مذمت کی گئی۔

سابق صدر بل کلنٹن کی بیٹی چیلسیا نے لکھا کہ صہیونیت مخالف زبان اور تماثیل کی ہمیں مخالفت کرنی چاہیے۔ میں ایلھان سے بات کروں گی۔

نیسنی پیلوسی نے ایلھان کو اپنے دفتر بلا کر جھاڑ پلائی۔ اور انہیں کہا کہ وہ اپنے بیان پر معافی مانگیں۔

اس کے بعد ایک بیان میں ایلھان عمر نے لکھا کہ وہ ’صریح الفاظ میں معافی‘ مانگتی ہیں۔ ایلھان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے یہودی ساتھیوں اور اتحادیوں کی شکرگزار ہیں جو انہیں صہیونیت مخالف الفاظ کی تکلیف دہ تاریخ پر تعلیم دے رہے ہیں۔ ایلھان عمر کا کہنا تھا کہ ان کا ارادہ امریکی یہودیوں کو تکلیف دینے کا نہیں تھا۔

تاہم اس بیان میں ایلھان نے یہ بھی کہا کہ ایپیک اور امریکہ کے لابسٹ کا کردار غلط ہے اور اس پر توجہ دینی چاہئے۔

اسرائیل کے حامی گروپ کتنے طاقتور

ایلھان عمر نے اسرائیل کی مخالفت پر پہلی مرتبہ معافی نہیں مانگی۔ گذشتہ ماہ انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل نے دنیا کو ’ہیپناٹائز‘‘ کر رکھا ہے۔ ہیپناٹائز کے لفظ پر انہیں معافی مانگنا پڑی کیونکہ نازی جرمنی میں یہودیوں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتاتھا۔

تاہم سب سے زیادہ دلچسپ معافی کیون میک کارتھی کی تھی جو اب صہونیت مخالفت پر مسلمان خواتین ارکان کانگریس کو دھمکی دیے رہے ہیں۔

کیون میک کارتھی نے گذشتہ برس لکھا تھا کہ ارب پتی یہودی  امریکہ کے انتخابات خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات پر انہیں زبردست دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔

ایلھان کی جانب سے دولت استعمال کرکے سیاستدانوں کی وفاداری اسرائیل کے لیے خریدنے کے الزام پر ایپیک نے کوئی وضاحت نہیں کی بلکہ الٹا کہا ہے کہ اسے اپنے کردار پر فخر ہے۔

امریکی دارالحکومت میں ایپیک ایسا واحد گروپ نہیں جو اسرائیل کے حق میں مؤقف اپنانے کےلیے امریکی سیاستدانوں کو رقوم دیتا ہے۔ ایسے کئی گروپ سرگرم ہیں۔

نظرات بینندگان
captcha