علی مظہر العجائب کی شہادت کی مناسبت سے دنیا بھر میں مجالس

IQNA

علی مظہر العجائب کی شہادت کی مناسبت سے دنیا بھر میں مجالس

11:26 - May 27, 2019
خبر کا کوڈ: 3506170
بین الاقوامی گروپ- امام علی علیہ السلام کی شہادت سے ستون ہدایت منہدم ہوگیا۔ جبرئیل کی ندا پر کہرام بپا۔

ایکنا نیوز- امام اول شہید محراب امیرالمومنین حضرت علی کی شہادت پر دنیا کے مختلف ممالک میں مجالس عزا جاری ہیں اور کروڈوں عاشقان خانوادہ رسالت شب ہائے قدر کے ساتھ شہادت امام کی سوگواری بھی منارہے ہیں۔ اس موقع پر انکی زندگی کا ایک طایرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

جنگوں میں وہ دلاور کہ اس جیسا انسان کوئی اور ماں پیدا نہ کرسکی۔ جب دیکھتے تو علی علیہ السلام کے ہاتھ میں کبھی عمرو بن عبدود کا سر تو کبھی دروازہ خیبر صرف یہی نہیں بلکہ اگر تاریخ کے کچھ اوراق پلٹائیں گے تو پھر علی علیہ السلام کے ہاتھ میں کبھی مرحب کا اور کبھی عنتر کا اور کبھی کسی اور کا سر نظر آئے گا۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ جو اتنا بہادر اور نڈر سپاہی ہوگا وہ تاریخ کے کچھ اوراق پلٹنے کے بعد ساری ساری رات عبادت اور نماز میں کھڑا ہوا نظر آئے گا۔یہی شخص جب منبر رسول(ص) پر بیٹھ کر ظاہری طور پر حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو انصاف اور عدالت کی وہ مثال قائم کرتا ہے کہ جس پر ہر نبی اور دنیا کا ہر بادشاہ آج تک انگشت بدنداں ہے۔

اگر بات صرف یہاں تک محدود ہوتی تو شاید میں چپ رہتا لیکن جب علی علیہ السلام حاکم اسلامی ہونے کے باوجودراتوں کو یتیموں کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ دنیا کی پہلی اور آخری مثال ہے۔

یہی مر د میدان جب جملصفین اور نہروان کے میدان میں دشمنوں کے سامنے آتا ہے تو جیتنے کے بعد اس کے چہرے پر فتح کی لالی نہیں بلکہ مسلمانوں کا خون بہنے کا افسوس ہے۔

علمی میدان میں جہاں تک نظر دوڑائیں گے علی علیہ السلام ہی علی علیہ السلام نظر آئے گا۔چاہے علم نحو ہوچاہے علم تفسیرہوچاہے علم فقہ ہوچاہے علم فلسفہ ۔جس طرف بھی جائیں گے جائے پناہ سوائے علی کے اور کوئی نہیں پائیں گے۔ علی علیہ السلام جس جگہ پیدا ہوئے وہ خانہ کعبہ ہے اور جس جگہ اس دنیا کو فزت و رب الکعبہ کہہ کر ظاہری طور پر آنکھ بند کی وہ مسجد کوفہ ۔کعبے سے زیادہ مقدس جگہ کا ہمیں نہیں پتہ اور مسجد کی محراب میں شہادت سے بڑے رتبے کا بھی کسی کو علم نہیں ہے۔

ندائے عدالت اسلامی کا مصنف مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی لکھتا ہے کہ ’’میں چالیس سال صرف اس کوشش میں رہا کہ کسی بھی کتاب سے علی علیہ السلام کی ایک غلطی یا ایک خامی تلاش کرلوں۔لیکن چالیس سال کی تحقیق اور مطالعے کے بعد بھی میں وہیں کھڑا ہوں جہاں چالیس سال پہلے تھا‘‘

بلاشک امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات ایک بہت بڑے اوقیانوس کے چھپے ہوئے کنارے کی طرح ہے کہ ایک انسان کے لئے جسکا پوری طرح سے احاطہ کرنا ناممکن ہے آپ جس طرف سے بھی فضیلت کے اس سمندر میں وارد ہونے کی کوشش کریں گے آپ عظمت کی ایک کائنات کا بچشم خود مشاہدہ کریں گے،عجائبات کی ایک دنیا مختلف ند یاں، گہرائیاں ،قسم قسم کے دریائی حیوانات اس طرف کو چھوڑ کر ایک دوسرے کنارے سے وارد ہوں تو پھر بھی یہی منظر دکھائی دے گا۔ اگر اس اقیانوس کے تیسرے چوتھے یا دسویں حصے کی طرف جائیں یا جس طرف سے بھی اسکے اندر داخل ہوں اسی طرح کے عجائب و غرائب انسان کو حیرت میں ڈالتے رہیں گے ذات امیرالمومنین علیہ السلامبھی کچھ اسی طرح ہے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے انکی ہمہ گیر و آفاقی شخصیت کے لئے یہ مثال بھی نارسا دکھائی دیتی ہے انکی ذات واقعاً عجائب و غرائب کا ایک شگفتہ انگیز مجموعہ ہے۔ یہ اظہارات ایک انسان کے عجز و ناتوانی کو بتا رہے ہیں جس نے خود ایک مدّت تک آپکی شخصیت کو زیر مطالعہ رکھا ہے اور پھر یہ محسوس کیا کہ اس فضیلت مآب ذات علی علیہ السلام کو ایک معمولی ذہن اپنی اس عقل و فہم کے ذریعہ سمجھنے سے قاصر ہے اس لئے کہ انکی ذات ہر طرف سے شگفت آور نظر آتی ہے ۔

ایک دوسرا نمونہ جو آپکی زندگی میں ملتا ہے وہ ہے آپکی قدرت و شجاعت اور مظلومیت ۔آپکے زمانے میں آپ سے زیادہ شجاع و بہادر کون ہو سکتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری زندگی کے آخری لمحات تک کسی شخص کی بھی جرآت نہ ہو سکی کہ آپکی شجاعت و قدرت کے سامنے اپنی بہادری کا دعو یٰ کرسکے اس کے باوجود آپکی ذات گرامی اپنے زمانے کی مظلوم ترین شخصیت ہے۔ کسی کہنے والے نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ شاید تاریخ اسلام کی شخصیتوں میں مظلوم ترین شخصیت آپ کی ذات ہے قدرت اور مظلومیت آپس میں دو متضادصفات ہیں جو جمع نہیں ہوتیں،عموماً طاقتور مظلوم نہیں مگر امیر المومنین علیہ السلام قوت وطاقت کے مالک ہو کر بھی مظلوم واقع ہوئے ہیں۔

علی مظہر العجائب کی شہادت کی مناسبت سے دنیا بھر میں مجالس

حضرت علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے ستون ہدایت منہدم ہو گیا:

 

انیسویں ماہ رمضان کو حضرت علیہ السلام کے سر اقدس پر ضربت لگنے سے اہل کوفہ کا کیا حال ہوا، خدا ہی جانے وہ آپکا لوگوں کے درمیان محبوب چہرہ، وہ بزرگ انسان، وہ عدل مجسم،وہ آپکی ولولہ انگیز صدا وہ آپکا ضعفائ اور دبے کچلے لوگوں پر شفقت کرنے والا مہربان ہاتھ،اشقیائ کے مد مقابل غیض و غضب کرنے والا انسان ، اس پانچ سال کی مدت میں اہل کوفہ و اہل عراق اور جو لوگ مدینہ سے ہجرت کر کے حضرت کے پاس آئے تھے، خود کو کوفہ میں یا کوفہ سے باہر دیگر میدانوں میں ان لوگوں نے علی علیہ السلام کو کچھ اسی طرح پایا تھا اور ان سے مانوس ہو چکے تھے اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ جب ان لوگوں نے یہ سنا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سر مبارک پر ضربت لگی ہے تو انکا کیا حال ہو ا؟ بس اتنا ہے کہ جب یتیموں نے سنا کہ علی کو دودھ پینا چاہیے تاکہ زہر کا اثر کم ہو تو اگلے دن کہا جاتا ہے کہ علی کے گھر کے باہر کوفہ کے یتیم بچے صف باندھ کر کھڑے تھے اور ہر ایک کے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔

علی مظہر العجائب کی شہادت کی مناسبت سے دنیا بھر میں مجالس

حضرت علیؑ کی وصیت:

 

ضربت کے بعد حسنینؑ شریفین اور ان کے چاہنےوالوں کے نام حضرت علی علیہ السلامؑ کی وصیت:

 

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔

 

میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔

 

وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔

 

اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔

 

وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔

 

اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔

 

وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔

 

اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔

 

وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔

 

اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔

 

وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔

 

اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔

 

اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔

 

میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔

 

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

 

اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔

 

دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔

 

دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔

 

اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔

 

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔

 

اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا۔

 

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

 

کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

 

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔

 

اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔

 

وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔

 

تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

 

لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔

 

دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔

 

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔

 

اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔

 

أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔

 

دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔

 

اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”

اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔

 

دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔

 

نظرات بینندگان
captcha