پنجاب مذہبی جہادی اور شدت پسند تنظیموں کا گڑھ

IQNA

پنجاب مذہبی جہادی اور شدت پسند تنظیموں کا گڑھ

11:06 - March 13, 2017
خبر کا کوڈ: 3502665
بین الاقوامی گروپ: جہاد افغانستان اور کشمیر کیلئے مذہبی بیانیے کی تشکیل پنجاب میں ہوئی،ہمارے قومی مذہبی بیانیے کو عسکریت پسندوں نے ہائی جیک کرلیا ہے،ریاست عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے۔

ایکنا نیوز- شفقنا-جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ" میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سینئر تجزیہ کار اور مصنف مجاہد حسین اور باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں زخمی ہونے والے طالب علم سمیع اللہ سے بھی گفتگو کی گئی۔ مجاہد حسین نے کہا کہ پنجاب میں عسکریت پسند اور طالبان کے حمایتی موجود ہیں، پنجاب میں سرگرم عسکریت پسندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، عسکریت پسندی کا رجحان صرف جنوبی پنجاب نہیں پورے پنجاب میں پایا جاتا ہے، پنجاب کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے فرقہ وارانہ اور کالعدم جماعتوں سے سیاسی اتحاد کیے،مدارس کا براہ راست دہشتگردی سے تعلق نہیں مگر اکثر عسکریت پسند مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں۔

 

چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں زخمی ہونے والے ایم اے انگلش کے طالب علم سمیع اللہ نے بتایا کہ حملے کے وقت میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں تھا، دہشتگردوں نے مجھے تین گولیاں ماریں، ایک گولی سے میرا جبڑا ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا جبکہ زبان بھی متاثر ہوئی، وہ گولی ابھی بھی یہاں پھنسی ہوئی۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو درخواست دی ہے،وہ دستخط کردیں گے تو میں بیرون ملک علاج کیلئے جاؤں گا۔

 

میزبان سلیم صافی نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں صرف چھ مذہبی جماعتیں تھیں جن کی تعداد جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے تک 30تک ہی پہنچی تھی، مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہبی تنظیموں کی تعداد تیزی سے بڑھی اور سینکڑوں سے تجاوز کرگئی، 2002ء میں ملک کے اندر مذہبی جماعتوں کی تعداد 239 تک پہنچ گئی جن میں سے صرف 21مذہبی جما عتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں، ان میں 148فرقہ وارانہ اور24 جہادی تنظیمیں ہیں جبکہ 12تنظیمیں احیاء خلافت اپنا مقصد بتاتی ہیں۔

 

سلیم صافی نے کہا کہ پچھلے کچھ برسوں میں سندھ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں آپریشن ہوئے لیکن پنجاب میں صوبائی سطح پر کوئی آپریشن نہیں ہوا حالانکہ سب سے زیادہ مذہبی تنظیمیں پنجاب میں ہیں،پنجاب میں 107 مذہبی تنظیموں کے ہیڈکوارٹر ہیں جہاں صرف لاہور میں 71 مذہبی تنظیموں کے ہیڈکوارٹرز ہیں، آزاد جموں و کشمیر میں 48 ، خیبرپختونخوا میں 43 جبکہ سندھ میں بھی درجنوں مذہبی تنظیموں کے ہیڈکوارٹرز ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا نے کہا کہ جنرل (ر) ضیاء الحق کے دور میں مذہبی اداروں کی معیشت وجود میں آئی تھی،اس دور میں مذہبی جماعتوں اور مدارس کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کیلئے مذہبی بیانیے کی تشکیل پنجاب خاص طور پر لاہور میں ہوئی، پنجاب میں فرقہ وارانہ بیانیے کی تشکیل زیادہ تر جھنگ میں ہوئی، 1979ء کے بعد افغان جہاد میں سب سے زیادہ سرگرم جماعت اسلامی رہی تھی، طاقت اور وسائل کے حصول کیلئے مختلف مذہبی جماعتوں میں عسکریت پسندی کی دوڑ شروع ہوئی،بریلوی مکتبہ فکر کی توجہ ابتداء میں جہاد پراجیکٹ کی طرف نہیں تھی لیکن جب افغان جہاد کے فائدے ایک خاص مسلک کو پہنچے تو بعد میں بریلوی مکتبہ فکر کی کئی تنظیمیں کشمیر جہاد میں شامل ہوئیں،

 

سینئر تجزیہ کار اور مصنف مجاہد حسین نے کہا کہ بہت سی کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کے لوگ طالبان دھڑوں میں شامل ہوئے ہیں، پنجابی طالبان میں شامل تمام لوگ پنجاب سے تعلق رکھنے والی کالعدم فرقہ پرست جماعتوں کے تھے، افغانستان اور فاٹا میں عسکریت پسندوں کو افرادی قوت پنجاب نے فراہم کی، پنجاب کے دس ہزار سے زائد عسکریت پسند افغان جنگ میں طالبان اور فاٹا میں ٹی ٹی پی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

 

مجاہد حسین کا کہنا تھا کہ پنجاب کے ہر ضلع میں فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کا رجحان نظرا ٓتا ہے،یہ تاثر غلط ہے کہ غریب علاقوں کے لوگ زیادہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں،جن علاقوں میں فی کس آمدنی زیادہ ہے وہاں کے زیادہ لوگ عسکریت کی طرف راغب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں شہید ہونے والوں کی اکثریت فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہے ،طالبان میں شامل ہونے والے لوگوں کی اکثریت کا تعلق فرقہ وارانہ تنظیموں سے تھا، پاکستان میں ریاست کیخلاف لڑنے والوں میں دیوبندی نکتہ نظر کے لوگ زیادہ ہیں،بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ ابھی تک عملی طورپر عسکریت پسندی میں شامل نہیں ہوئے ہیں، سلفی نکتہ نظر کے عسکریت پسند ریاست کے خلاف نہیں لڑرہے ہیں۔

 

مجاہد حسین کا کہنا تھا کہپنجاب میں کچھ مدارس ایسے ہیں جو عسکریت پسندوں کے ہمدرد ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے معاملے پر ہندوستان کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے، انڈیا کے اہم سیکیورٹی عہدیدار برملا ٹی ٹی پی جیسی قوتوں کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کا کہہ چکے ہیں۔

نظرات بینندگان
captcha