میانمار: گاؤں میں ایک قبر سے 10 لاشیں برآمد

IQNA

میانمار: گاؤں میں ایک قبر سے 10 لاشیں برآمد

15:56 - December 20, 2017
خبر کا کوڈ: 3503969
بین الاقوامی گروپ: میانمار فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ راکھائن کی ریاست میں روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں سے ایک اجتماعی قبر سے 10 لاشیں برآمد کی گئی ہیں

ایکنا نیوز- ڈان نیوز کے مطابق  گزشتہ رات ایک قبر سے 10 لاشیں ملی، جنہیں ہفتے کے آغاز میں راکھائن کے مونگدو ٹاؤن شپ کے گاؤں میں دفنایا گیا تھا۔

 

واضح رہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں مسلمان اقلیتوں کے اخراج کے لیے فوج کی جانب سے بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔

 

شمالی راکھائن کی ریاست میں 25 اگست کو تشدد کی لہر اس وقت شروع ہوئی تھی، جب فوج نے پولیس پر حملہ کرنے والے روہنگیا باغیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا، جس کے بعد سیکڑوں دیہات نظر آتش کردیئے گئے جبکہ 6 لاکھ 55 ہزار روہنگیا باشندے بنگلہ دیش نقل مکانی کر گئے۔

 

میانمار کے آرمی چیف کے فیس بک پیچ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس قبر کے پیچھے سے متعلق معاملات کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اگر اس میں کوئی سیکیورٹی اہلکار ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

 

لاشیں نکالنے والی ٹیم کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ لاشوں کی حالت سے لگتا ہے کہ انہیں حال ہی میں قتل نہیں کیا گیا۔

 

انہوں نے کہا کہ ہم فرق نہیں کرسکتے کہ کون سی لاش کس کی ہے کیونکہ ہم نے صرف ڈھانچے اور ہڈیاں دیکھی ہیں۔

 

واضح رہے کہ یہ اجتماعی قبر برطانوی خبر رساں ادارے کے دو صحافیوں کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد دریافت ہوئی ہے، ان دونوں صحافیوں نے راکھائن کے بحران کا قریب سے جائزہ کیا تھا۔

 

یاد رہے کہ فوجی کریک ڈاؤن کے بعد سے اس علاقے میں ذرائع ابلاغ کو محدود کردیا گیا اور صرف انتظامیہ کی جانب سے منظم کردہ پریس دورے شروع کیے گئے تھے۔

 

یہاں تک کہ میانمار نے اقوام متحدہ کی فیکٹ اینڈ فائنڈنگ ٹیم کو بھی اس علاقے میں تحقیقات سے روک دیا تھا۔

 

خیال رہے کہ میانمار کے رپورٹر 31 سالہ وا لون اور 27 سالہ کیو سوئی او کو 12 دسمبر سے دیکھا نہیں گیا اور ان پر راکھائن میں سیکیورٹی فورسز سے متعلق دستاویزات جمع کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

 

 

ان دونوں صحافیوں کے اہل خانہ، وکیلوں اور ساتھیوں کو بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں کہا ہیں اور نہ ہی ان سے رابطے کی اجازت دی گئی۔

 

تاہم برطانوی خبر رساں ادارے نے اس حوالے سے تصدیق نہیں کہ صحافی ان کے لیے کام کرتے تھے یا ان کا اس اجتماعی قبر کے سامنے لائے جانے کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات سے کوئی تعلق تھا۔

نظرات بینندگان
captcha