فرانس میں اظھار رائے کی آزادی اور حکمرانوں کے متضاد بیانات

IQNA

فرانس میں اظھار رائے کی آزادی اور حکمرانوں کے متضاد بیانات

8:43 - December 22, 2020
خبر کا کوڈ: 3508663
تہران(ایکنا) رسول اکرم (ص) کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے فرانس میں اسلام فوبیا کی لہر میں شدت آگئی تھی تاہم فرنچ ٹیچر کے قتل کے بعد صدر کے تند و تیز بیانات نے فضا کو مزید مخدوش کردیا۔

فرانس کے میگزین چارلی ہیبڈو مین رسول اکرم (ص) کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے فرانس میں اسلام فوبیا کی لہر میں شدت آگئی تھی تاہم فرنچ ٹیچر کے قتل کے بعد صدر میکرون کے تند و تیز بیان اور اس پر فرانس میں اظھار رائے کی آزادی پر تاکید نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

 

میکرون نے خطاب میں تاکید کی کہ «ہم توہین آمیز خاکوں سے پچھے نہیں ہٹیں گے گرچہ دوسرے پسپا ہو جائے...» . اس تقریر کے بعد سیکولر ملک فرانس کے اندر نفرت انگیز جرائم میں شدت آگئی ہے۔

 

اس دوران فرانس کے سابق صدر ژاک شیراک کا بیان سامنے آیا جسمیں انہوں نے  «آزادی اظھار مگر ذمہ دارانہ» کی بات کی تھی اورکہا کہ دوسروں کے احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے آزادی اچھی ہے۔

 

قابل ذکر ہے کہ  سال ۲۰۰۶، میں صدر شیراک نے توہین آمیز خاکوں کی مذمت کی تھی اور کہا تھا « دوسروں کے احساسات کو مجروح کرنے سے گریز کیا جائے».

 

شیراک کا کہنا تھا: «اگرچہ آزادی اظھار رائے جمہوریت کی بنیاد ہے مگر دوسروں کا احترام اور بقائے باہمی بھی جمہوریت کے حسن ہے».

 

عیسائی مذہب کے بعد اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب شمار ہوتا ہے اور چھ سے آٹھ ملین مسلمان فرانس کی آبادی دس فیصد حصہ شمار ہوتا ہے جنکی اکثریت شمالی افریقہ سے ہجرت کرنے والوں کی ہے۔

 

بہت سے فرنچ مسلمانوں نے کبھی آبائی علاقہ دیکھا ہی نہیں اور یہی پر پیدا اور پرورش پاِئی ہیں اور اس وقت فرانس میں ۲۰۰۰ مساجد موجود ہیں جنمیں ۱۵۰۰ امام جماعت قانونی طور پر مذہبی سرگرمیاں انجام دیں رہے ہیں۔/

3942518

 

نظرات بینندگان
captcha