امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

IQNA

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

8:58 - March 29, 2021
خبر کا کوڈ: 3509069
امام وقت اور ایک نجات دہندہ انسانیت کی آرزو ہے اور پندرہ شعبان اس دن کی یاد دلاتا ہے۔

 

معرفت:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا سب سے اہم فریضہ معرفت امام زمانہ علیہ السلام کا حصول ہے اور یہ اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة چنانچہ امت کو چاہیے کہ امام علیہ السلام کی معرفت کی راہ میں جدوجہد کرے خصوصا ان دعاؤں کی کثرت سے تلاوت کی جائے جو راہ میں معاون ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اللھم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک اللھم عرفنی نبیک فانک ان لم تعرفنی نبیک لم اعرف حجتک اللھم عرفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ضللت عن دینی۔



ترجمہ : خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ کرے تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔

عن الی عبداللہ علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل من یوت الحکمہ فقد اوتی خیرا کثیرا فقال طاعة اللہ و معرفة الامام فرمایاامام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اس حکمت مراد اللہ کی اطاعت اور معرفت امام علیہ السلام ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۲۱۲)

اطاعت:

قرآن و حدیث کی رو سے امام علیہ السلام کی اطاعت کو مطلقاً واجب قرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ ذمہ داری اور بھی سنگین ہو جاتی ہے عن الی جعفر علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل واٰتمنا ھم ملکا عظیما قال الطاعة المفروضة۔

آیت مبارکہ اور ہم نے ان کو ملک عظیم دیا کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد ہماری وہ اطاعت ہے جو لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۴۱۲)

تعجیل ظہور کی دعا:

حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور میں جلدی کی کثرت سے دعائیں مانگیں کیونکہ خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ اکثر و الدعاءبتعجیل الفرج فان ذلک فرجکم ظہور میں تعجیل کے لیے بہت زیادہ دعا کرو کیونکہ تمہارے امور کی کشائش اسی میں ہے علاوہ ازیں دعا فرج کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے جو اکثر دعاؤں کی کتابوں میں درج ہے۔

الہیٰ عظم البلاءو برح الخفائ۔

انتظار:

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار افضل ترین عبادت ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران ان کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کا اجرو ثواب آئمہ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہمارے امر (حکومت) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہوتا ہے بس یہ انتظار اس طور ہونا چاہیے کہ کسی لمحہ بھی غافل نہ ہوا جائے صادق علیہ السلام آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ وانتظرو الفرج صباحاً و مساءتم لوگ صبح و شام ظہور کا انتظار کرو۔

اشتیاق زیارت:

شیعان اہلبیت علیہ السلام کا امام علیہ السلام کی غیبت میں ایک خاص فریضہ آپ کے جمال مبارک کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا بھی ہے ہر وقت دل میں ان کے دیدار کی تڑپ رہنی چاہیے اپنے آقا سے محو گفتگو ہونے کے لیے ہر جمعہ کی صبح بعد نماز فجر دعائے ندبہ (جو امام علیہ السلام کے فراق میں تڑپنے والوں کا نوحہ ہے) کی تلاوت کرے جس کے کلمات ہیں بارالہاٰ! ہم تیرے نا چیز بندے تیرے اس ولی کی زیارت کے مشتاق ہیں کہ جو تیری و تیرے رسول کی یاد تازہ کرتا ہے۔

دعا برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک سچے مومن اور شیعہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی دعاؤں میں اپنے ہادی اور آقا کی سلامتی کا خواہاں رہے خاص طور سے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کثرت ہے جس دعا کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے اللھم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیہ السلام صلواتک علیہ و علی آبائہ فی ھذة الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتی تسکنہ ارضک طوعا و تمتعہ فیھا طویلا۔

صدقہ برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک اور پسندیدہ فریضہ جس کی تاکید ہمارے پیشوایان دین نے کی ہے وہ ہے امام علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا ہے صدقہ بذات خود ایک محبوب عمل ہے اور سلامتی امام علیہ السلام کی نیت سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک امام علیہ السلام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں اُحد کے پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

اتباع نائبین امام علیہ السلام:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کا کوئی شخص بھی نائب خاص نہیں بلکہ فقہاءجامع الشرائط ہی حضرت علیہ السلام کے عام نمائندے ہیں چنانچہ ان کی اتباع واجب ہے (جسے فقہی اصطلاح میں تقلید کا نام دیا جاتا ہے) خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ہماری غیبت کبریٰ میں پیش آنے والے حالات و مسائل کے سلسلہ میں ہماری حدیثوں کو بیان کرنے والے علماء(فقہائ) کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ وہ اس ہماری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔

امام علیہ السلام کا نام لینے کی ممانعت:

امام آخر الزمان علیہ السلام کا خاتم الانبیا کے نام پر ہے لیکن احادیث میں حضرت کا نام پکارنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے حجت العصر علیہ السلام، مہدی علیہ السلام، قائم علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، امام غائب علیہ السلام وغیرھم۔

احتراماً کھڑے ہونا:

جب صاحب الزمان علیہ السلام کا تذکرہ آئے خصوصاً جب آپ کے القابات میں سے قائم علیہ السلام کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جانا سنت آئمہ علیہ السلام ہے کیونکہ جب دعبل خزاعی نے آٹھویں امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنا قصیدہ پیش کیا تھا تو جیسے ہی آخری امام علیہ السلام کا نام آیا تو آٹھویں امام علیہ السلام احتراماً کھڑے ہو گئے تھے۔

مشکلات میں امام زمانہ علیہ السلام کو وسیلہ بنانا:

خدا سے سوال کرتے وقت خصوصاً پریشانیوں میں امام علیہ السلام کے حق کی قسم دے کر حاجات طلب کرنا یا امام علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ کی صورت میں حاجات پیش کرنا خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے وبی یدفع اللہ عزوجل البلاءعن اھل و شیعتی اور خدائے عزوجل میرے ذریعے ہی میرے اہل و عیال اور میرے شیعوں سے مصائب کو دور کرتا ہے۔

امام علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا:

حضرت مہدی علیہ السلام پر درودو سلام زیادہ بھیجا جائے خاتم الانبیاءسے ابن حجر مکی نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا لا تصلو اعلی الصلاة البترا فقالوا وبا الصلوة البترا قال تقولون اللھم صل علی محمد بل قولا اللھم صل علی محمد وآل محمد۔ مجھ پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجا کرو اصحاب نے عرض کی وہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا فقط اللھم صل علی محمد کہو اس سے آگے نہ پڑھو اور رک جاؤ بلکہ یوں کہو اللھم صل علی محمد و آل محمد۔

(صواعق محرقہ ص۴۴۱) اور چونکہ یہ آخری امام علیہ السلام کا دور ہے تو خاص طورپر ہر نماز کے بعد آپ علیہ السلام پر درود و سلام پڑھا جائے۔

غیبت میں کثرت سے امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرنا:

غیبت کبریٰ میں امام علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت ہیں اپنی مجالس اجتماعات، محافل اور عبادات میں آپ علیہ السلام کے ذکر سے لوگوں کے دلوں کو تازہ کریں اور حضرت علیہ السلام کا حامی اور دوست بنائیں امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ہر مومن خود بھی تیار رہے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے۔

امام رض علیہ السلام جمعہ کے دن نماز ظہر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللھم اصلح عندک و خلیفتک بما اصلحت بہ انبیائک و رسلک و حقہ بملائکتک و ایدہ بروح القدس من عندک واسلکتہ من بین یدیہ و من خلفہ رصدا یحفظونہ من کل سوءو ایدتہ من بعد خوفہ امنا بعدک لا یشرک بک شیا ولا یجعل لا حد من خلقک علی ولیک سلطانا و اذن لہ فی جہاد عدوک وعدوہ واجعلنی من انصارہ ان علی کل شی قدیر۔

ترجمہ: پروردگارا! جن وسائل سے تو نے اپنے انبیاءاور مرسلین کے حالات کی اصلاح فرمائی ہے اپنے عہد خاص اور جانشین کے حالات کی بھی اصلاح فرما ملائکہ اس کے گرد رہیں اور روح القدس اس کی تائید کرے اس کے سامنے اور بس پشت ایسے محافظ رہیں جو اسے ہر مصیبت اور آفت سے بچاتے رہیں اس کا خوف امن سے تبدیل کر دے وہ تیرے عبادت میں سر گرم رہے اور شرک کاکوئی شائبہ نہ رہے کسی شخص کو تیرے ولی علیہ السلام پر اقتدار حاصل نہ ہو اور اسے اپنے اور اس کے دشمن سے جہاد کی اجازت دے دے اور ہمیں اس کے اعوان و انصار میں قرار دے تو کائنات کی ہر شئے پر قادر ہے۔

دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلح رہنا:

امام مہدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو دشمنوں سے جنگ کرنا پڑے گی ایک سچے منتظر کو چاہیے کہ انتظار کے ساتھ ساتھ جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۹۲)

امام علیہ السلام کی نیابت میں مستحبات کی انجام دہی:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا ایک فریضہ یہ بھی ہے جسے ہمارے اسلاف اور علماءانجام دینے میں بہت ہی اہتمام کیا کرتے تھے کہ شیعہ ہر مستحب عمل امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی نیت سے ادا کرے تلاوت قرآن پاک، نوافل نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام کی زیارت آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج و عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور اگر استطاعت رکھتا ہو تو عیدالاضحی کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت پڑھنا:

مومن کو چاہیے کہ ہر روز صبح نماز کے بعد امام صاحب العصر علیہ السلام کی یاد میں زیارت پڑھے۔(مفاتیح الجنان ص۱۴۵)

زیارت جامعہ کبیرہ پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے اور مفاتیح اور زیارات کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ (مفاتیح الجنان ص۷۴۵)

تجدید بیعت:

مومن کو چاہےے کہ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھے اور کہے اے امام علیہ السلام میں آپ کا مومن ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہے آپ کے انصار اور آپ کے مشن کی خاطر کام کرنے والوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں یا ہر روز نماز صبح کے بعد دعائے عہد پڑھ کر امام علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو مضبوط بنائیں۔(دعائے عہد مفاتیح الجنان ص۲۴۵)

توبہ کے پروگرام:

امت کے اعمال ہر روز یا ہر شب جمعہ امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ اعملو فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آیہ اعملوا.... الخ میں مومنوں سے کون مراد ہیں فرمایا وہ آئمہ ہیں۔(اُصول کافی ج۱ص۲۵۲)

انسان چونکہ غیر معصوم ہیں دن میں کئی گناہ انسان سے سر زد ہو جاتے ہیں تو ہر رات سونے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے گناہوں پر توبہ کرے تا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اعمالنامے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوں ان سے گناہ مٹ جائیں بلکہ غیبت کبریٰ میں توبہ کے اجتماعی پروگرام منعقد کرنے چاہیے کیونکہ اجتماعی عبادت قبولیت کے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی کئی گنا ہوتا ہے مثلاً ہر شب جمعہ کوئی مومن دعائے کمیل کا اہتمام کرے۔

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں:

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کس طرح اپنے مخالفین کو جواب دیں علماءکی ذمہ داری ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کو نابود کرنے کے لیے افراد امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تا کہ منظم ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں حدیث میں ہے کہ جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور فرمان رسول ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(اُصول کافی ج۱ص۶۳،۸۵)

جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا:

اگر کوئی غیبت کبریٰ کے زمانے میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے اسی طرح جامع الشرائط فقیہ کے علاوہ کوئی شخص کسی کام کا حکم دے اور امام علیہ السلام سے منسوب کرے کہ امام علیہ السلام نے مجھے کہا ہے کہ میں لوگوں کو اس کا حکم دوں تو اسے بھی جھٹلایا جائے۔

ظہور کا وقت معین نہ کرنا:

روایات میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا گیا پس اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے جھٹلایا جائے۔

مال امام علیہ السلام کی ادائیگی:

غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے خصوصاً خمس کا جو حصہ مال امام علیہ السلام ہے اسے امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر خرچ کرےں۔(یہ حکم علماءکے لیے ہے عوام پر خمس کا نائب امام علیہ السلام یعنی مجتہد تک پہنچا دینا ہی کافی ہے)

امام العصر علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے جیسا کہ حدیث معراجیہ میں ہے اور یہ اظہار صرف زبان سے ہی نہ ہو بلکہ اعضاءو جوارح سے بھی ہو جیسا کہ خود امام مہدی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ فلیعمل کل امری منکم ما یقرب بہ من محبنا پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ایسے کام کرے جو تمہیں ہماری محبت سے قریب تر کریں۔

آپ علیہ السلام کے فراق میں غمگین رہنا:

سچا مومن امام علیہ السلام کی جدائی اور فراق پر نہ صرف یہ کہ غمگین رہتا ہے بلکہ گریہ کناں رہتا ہے دعائے ندبہ کے کلمات ہیں کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ یہ بد قسمت آنکھیں ساری خلقت کا تو مشاہدہ کریں لیکن تیرے دیدار سے محروم رہیں۔

کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ تیرے غیر سے جواب سنوں اور تےری گفتار سے محروم رہوں۔

کس قدر مشکل ہے میرے لیے کہ تیری یاد میں گریہ کروں اور لوگ تیری یاد سے غافل ہوں۔

آیا کوئی ہے میری مدد کرنے والا؟ جو میرے ہم گریہ و نالہ ہو سکے؟

آیا کوئی ایسی چشم اشک بار ہے کہ میری آنکھوں کا ساتھ دے سکے؟

اے فرزند احمد! کیا آپ علیہ السلام تک پہنچنے کی کوئی راہ ہے؟

آپ علیہ السلام کی غیبت پر اظہار رضایت:

مومن کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے معاملے میں تسلیم ہو اور یہ عقیدہ رکھے آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے غائب ہیں اس پر رضایت اور سر تسلیم خم کرنا چاہیے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے اور نہ ہی آپ علیہ السلام کی طولانی غیبت سے مایوس ہو۔

امام علیہ السلام کی مظلومیت پر افسردہ ہونا:

شیخ صدوق نے اکمال الدین میں حدیث نقل کی ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اورہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔

ایمان پر ثابت قدم رہنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ذمہ داری ہے کہ دین پر مستحکم رہے ایمان کی بقاءکے لیے کوشش کرتا رہے باطل کی رنگینیوں پر نہ جائے۔ ایک مرتبہ خاتم الانبیائ نے اصحاب سے سوال کیا سب سے قابل تعجب ایمان کس کا ہے اصحاب نے کہا انبیاءکا آپ نے فرمایا انبیاءتو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں ان کا ایمان جتنا بھی زیادہ ہو ان کے لیے مناسب ہے اس میں تعجب کی کیا بات؟ پھر اصحاب نے عرض کیا ملائکہ کا ایمان آپ نے فرمایا ملائکہ تو معصوم مخلوق ہیں ان کے ایمان میں تعجب کیسا؟ پھر اصحاب نے عرض کی یا رسول ہمارا ایمان قابل تعجب ہے کہ ہم نے آپ سے دین کو حاصل آپ نے فرمایا تمہارے ایمان میں تعجب کی کیا بات ہے میں تمہارے درمیان موجود ہوں تم مجھے دیکھ رہے ہو مجھ سے کسب فیض کر رہے ہو پھر اصحاب نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہی ارشاد فرمائیے کہ کس کا ایمان قابل تعجب ہے آپ نے فرمایا میری امت کے وہ افراد جو میرے آخری فرزند کے زمانے میں ہوں گے ان کا ایمان قابل تعجب ہے اس لیے کہ زمانہ اتنا نازک آجائے گا کہ ہاتھ پر انگارہ رکھنا آسان ہو گا لیکن ایک دن اپنے ایمان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

(نوٹ: مندرجہ بالا واقع میں مفہوم حدیث بیان کیا گیا ہے بعینہ الفاظ نہیں)

مصائب کو برداشت کرنا:

امت کا فریضہ ہے کہ دشمنوں کی طرف سے جو مصائب آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو مومن بارہویں امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کے جھٹلانے پر صبر کرے برداشت سے کام لے اور نہ گھبرائے وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول خدا کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)

امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔

امام مہدی علیہ السلام کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔

امام علیہ السلام کے اعوان و انصار میں سے ہونے کی دعا مانگنا۔

مجالس میں یا اجتماعات میں امام علیہ السلام کے لیے جب دعا مانگی جائے تو بلند آواز میں مانگی جائے۔

خدا سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا! مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم آل محمد کی ملاقات و زیارت نصیب فرما۔

امام علیہ السلام کے مشن کی ترویج کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ علوم محمد و آل محمد کی نشرو اشاعت کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں صحیح عقائد کو راسخ کیا جائے اور گمراہی و بے راہ روی سے بچایا جائے۔

استعمار اور طاغوتی طاقتوں سے مرعوب نہ ہو اور نہ ہی اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا اثر قبول کرے بلکہ فحاشی اور عریانی کا مقابلہ کرنے کے نیٹ پر ایسے چینلز دکھائے جائیں جن پر ایسا اسلامی مواد نشر کیا جاتا ہو جو نوجوانان ملت کے فکر کو بھٹکنے سے بچائے خصوصاً موجودہ دور جو ترقی کا دور ہے میڈیا کے ذریعے افراد کو مقصد حیات سے غافل کیا جا رہا ہے تو یقینا امراءاور علماءکے تعاون سے میڈیا ہی کے ذریعے ایسے پروگرامز کی نشرواشاعت کی ضرورت ہے جو ملت کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہیں۔

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ایک ذمہ داری اہم ذمہ داری منجد ہو کر رہنا ہے اگر ملت خود ہی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی یا تعصبات کی نظر ہو جائے گی تو پھر کامیابی نا ممکن ہے امت کا شرعی فریضہ یہ ہے کہ یہ اختلافات سے بالاتر ہو کر امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کریں اور دشمن کو خود پر غالب نہ آنے دیں اس قدر منظم اور منجد ہو جائیں دشمن ٹکرا کر خود ہی تباہ و برباد ہو جائے۔

امام علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے اپنے بچوں، اداروں اور مساجد وغیرہ کے نام امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھیں بلکہ کوشش کریں کہ اپنے علاقوں، گلیوں اور چوک وغیرہ کے نام بھی امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھے۔

اور انشاءاللہ یہ عمل ہمارے مصلح اور ہادی کی محبت و عنایت ہماری جانب ملتفت کرنے کا سبب بن جائے گا۔

دنیاداروں کے ساتھ زیادہ میل جول اور آمد و رفت نہ رکھے بلکہ ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھے جو امام علیہ السلام کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔

مندرجہ ذیل دعا کا ورد کرے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ کلمات وارد ہوئے ہیں۔

یااللہ یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک بحرمة محمد و آلہ الاطہار

ترجمہ : خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ کرے تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔

عن الی عبداللہ علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل من یوت الحکمہ فقد اوتی خیرا کثیرا فقال طاعة اللہ و معرفة الامام فرمایاامام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اس حکمت مراد اللہ کی اطاعت اور معرفت امام علیہ السلام ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۲۱۲)

اطاعت:

قرآن و حدیث کی رو سے امام علیہ السلام کی اطاعت کو مطلقاً واجب قرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ ذمہ داری اور بھی سنگین ہو جاتی ہے عن الی جعفر علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل واٰتمنا ھم ملکا عظیما قال الطاعة المفروضة۔

آیت مبارکہ اور ہم نے ان کو ملک عظیم دیا کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد ہماری وہ اطاعت ہے جو لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۴۱۲)

تعجیل ظہور کی دعا:

حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور میں جلدی کی کثرت سے دعائیں مانگیں کیونکہ خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ اکثر و الدعاءبتعجیل الفرج فان ذلک فرجکم ظہور میں تعجیل کے لیے بہت زیادہ دعا کرو کیونکہ تمہارے امور کی کشائش اسی میں ہے علاوہ ازیں دعا فرج کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے جو اکثر دعاؤں کی کتابوں میں درج ہے۔

الہیٰ عظم البلاءو برح الخفائ۔

انتظار:

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار افضل ترین عبادت ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران ان کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کا اجرو ثواب آئمہ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہمارے امر (حکومت) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہوتا ہے بس یہ انتظار اس طور ہونا چاہیے کہ کسی لمحہ بھی غافل نہ ہوا جائے صادق علیہ السلام آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ وانتظرو الفرج صباحاً و مساءتم لوگ صبح و شام ظہور کا انتظار کرو۔

اشتیاق زیارت:

شیعان اہلبیت علیہ السلام کا امام علیہ السلام کی غیبت میں ایک خاص فریضہ آپ کے جمال مبارک کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا بھی ہے ہر وقت دل میں ان کے دیدار کی تڑپ رہنی چاہیے اپنے آقا سے محو گفتگو ہونے کے لیے ہر جمعہ کی صبح بعد نماز فجر دعائے ندبہ (جو امام علیہ السلام کے فراق میں تڑپنے والوں کا نوحہ ہے) کی تلاوت کرے جس کے کلمات ہیں بارالہاٰ! ہم تیرے نا چیز بندے تیرے اس ولی کی زیارت کے مشتاق ہیں کہ جو تیری و تیرے رسول کی یاد تازہ کرتا ہے۔

دعا برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک سچے مومن اور شیعہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی دعاؤں میں اپنے ہادی اور آقا کی سلامتی کا خواہاں رہے خاص طور سے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کثرت ہے جس دعا کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے اللھم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیہ السلام صلواتک علیہ و علی آبائہ فی ھذة الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتی تسکنہ ارضک طوعا و تمتعہ فیھا طویلا۔

صدقہ برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک اور پسندیدہ فریضہ جس کی تاکید ہمارے پیشوایان دین نے کی ہے وہ ہے امام علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا ہے صدقہ بذات خود ایک محبوب عمل ہے اور سلامتی امام علیہ السلام کی نیت سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک امام علیہ السلام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں اُحد کے پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

اتباع نائبین امام علیہ السلام:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کا کوئی شخص بھی نائب خاص نہیں بلکہ فقہاءجامع الشرائط ہی حضرت علیہ السلام کے عام نمائندے ہیں چنانچہ ان کی اتباع واجب ہے (جسے فقہی اصطلاح میں تقلید کا نام دیا جاتا ہے) خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ہماری غیبت کبریٰ میں پیش آنے والے حالات و مسائل کے سلسلہ میں ہماری حدیثوں کو بیان کرنے والے علماء(فقہائ) کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ وہ اس ہماری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔

امام علیہ السلام کا نام لینے کی ممانعت:

امام آخر الزمان علیہ السلام کا خاتم الانبیا کے نام پر ہے لیکن احادیث میں حضرت کا نام پکارنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے حجت العصر علیہ السلام، مہدی علیہ السلام، قائم علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، امام غائب علیہ السلام وغیرھم۔

احتراماً کھڑے ہونا:

جب صاحب الزمان علیہ السلام کا تذکرہ آئے خصوصاً جب آپ کے القابات میں سے قائم علیہ السلام کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جانا سنت آئمہ علیہ السلام ہے کیونکہ جب دعبل خزاعی نے آٹھویں امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنا قصیدہ پیش کیا تھا تو جیسے ہی آخری امام علیہ السلام کا نام آیا تو آٹھویں امام علیہ السلام احتراماً کھڑے ہو گئے تھے۔

مشکلات میں امام زمانہ علیہ السلام کو وسیلہ بنانا:

خدا سے سوال کرتے وقت خصوصاً پریشانیوں میں امام علیہ السلام کے حق کی قسم دے کر حاجات طلب کرنا یا امام علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ کی صورت میں حاجات پیش کرنا خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے وبی یدفع اللہ عزوجل البلاءعن اھل و شیعتی اور خدائے عزوجل میرے ذریعے ہی میرے اہل و عیال اور میرے شیعوں سے مصائب کو دور کرتا ہے۔

امام علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا:

حضرت مہدی علیہ السلام پر درودو سلام زیادہ بھیجا جائے خاتم الانبیاءسے ابن حجر مکی نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا لا تصلو اعلی الصلاة البترا فقالوا وبا الصلوة البترا قال تقولون اللھم صل علی محمد بل قولا اللھم صل علی محمد وآل محمد۔ مجھ پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجا کرو اصحاب نے عرض کی وہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا فقط اللھم صل علی محمد کہو اس سے آگے نہ پڑھو اور رک جاؤ بلکہ یوں کہو اللھم صل علی محمد و آل محمد۔

(صواعق محرقہ ص۴۴۱) اور چونکہ یہ آخری امام علیہ السلام کا دور ہے تو خاص طورپر ہر نماز کے بعد آپ علیہ السلام پر درود و سلام پڑھا جائے۔

غیبت میں کثرت سے امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرنا:

غیبت کبریٰ میں امام علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت ہیں اپنی مجالس اجتماعات، محافل اور عبادات میں آپ علیہ السلام کے ذکر سے لوگوں کے دلوں کو تازہ کریں اور حضرت علیہ السلام کا حامی اور دوست بنائیں امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ہر مومن خود بھی تیار رہے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے۔

امام رض علیہ السلام جمعہ کے دن نماز ظہر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللھم اصلح عندک و خلیفتک بما اصلحت بہ انبیائک و رسلک و حقہ بملائکتک و ایدہ بروح القدس من عندک واسلکتہ من بین یدیہ و من خلفہ رصدا یحفظونہ من کل سوءو ایدتہ من بعد خوفہ امنا بعدک لا یشرک بک شیا ولا یجعل لا حد من خلقک علی ولیک سلطانا و اذن لہ فی جہاد عدوک وعدوہ واجعلنی من انصارہ ان علی کل شی قدیر۔

ترجمہ: پروردگارا! جن وسائل سے تو نے اپنے انبیاءاور مرسلین کے حالات کی اصلاح فرمائی ہے اپنے عہد خاص اور جانشین کے حالات کی بھی اصلاح فرما ملائکہ اس کے گرد رہیں اور روح القدس اس کی تائید کرے اس کے سامنے اور بس پشت ایسے محافظ رہیں جو اسے ہر مصیبت اور آفت سے بچاتے رہیں اس کا خوف امن سے تبدیل کر دے وہ تیرے عبادت میں سر گرم رہے اور شرک کاکوئی شائبہ نہ رہے کسی شخص کو تیرے ولی علیہ السلام پر اقتدار حاصل نہ ہو اور اسے اپنے اور اس کے دشمن سے جہاد کی اجازت دے دے اور ہمیں اس کے اعوان و انصار میں قرار دے تو کائنات کی ہر شئے پر قادر ہے۔

دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلح رہنا:

امام مہدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو دشمنوں سے جنگ کرنا پڑے گی ایک سچے منتظر کو چاہیے کہ انتظار کے ساتھ ساتھ جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۹۲)

امام علیہ السلام کی نیابت میں مستحبات کی انجام دہی:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا ایک فریضہ یہ بھی ہے جسے ہمارے اسلاف اور علماءانجام دینے میں بہت ہی اہتمام کیا کرتے تھے کہ شیعہ ہر مستحب عمل امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی نیت سے ادا کرے تلاوت قرآن پاک، نوافل نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام کی زیارت آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج و عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور اگر استطاعت رکھتا ہو تو عیدالاضحی کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت پڑھنا:

مومن کو چاہیے کہ ہر روز صبح نماز کے بعد امام صاحب العصر علیہ السلام کی یاد میں زیارت پڑھے۔(مفاتیح الجنان ص۱۴۵)

زیارت جامعہ کبیرہ پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے اور مفاتیح اور زیارات کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ (مفاتیح الجنان ص۷۴۵)

تجدید بیعت:

مومن کو چاہےے کہ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھے اور کہے اے امام علیہ السلام میں آپ کا مومن ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہے آپ کے انصار اور آپ کے مشن کی خاطر کام کرنے والوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں یا ہر روز نماز صبح کے بعد دعائے عہد پڑھ کر امام علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو مضبوط بنائیں۔(دعائے عہد مفاتیح الجنان ص۲۴۵)

توبہ کے پروگرام:

امت کے اعمال ہر روز یا ہر شب جمعہ امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ اعملو فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آیہ اعملوا.... الخ میں مومنوں سے کون مراد ہیں فرمایا وہ آئمہ ہیں۔(اُصول کافی ج۱ص۲۵۲)

انسان چونکہ غیر معصوم ہیں دن میں کئی گناہ انسان سے سر زد ہو جاتے ہیں تو ہر رات سونے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے گناہوں پر توبہ کرے تا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اعمالنامے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوں ان سے گناہ مٹ جائیں بلکہ غیبت کبریٰ میں توبہ کے اجتماعی پروگرام منعقد کرنے چاہیے کیونکہ اجتماعی عبادت قبولیت کے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی کئی گنا ہوتا ہے مثلاً ہر شب جمعہ کوئی مومن دعائے کمیل کا اہتمام کرے۔

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں:

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کس طرح اپنے مخالفین کو جواب دیں علماءکی ذمہ داری ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کو نابود کرنے کے لیے افراد امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تا کہ منظم ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں حدیث میں ہے کہ جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور فرمان رسول ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(اُصول کافی ج۱ص۶۳،۸۵)

جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا:

اگر کوئی غیبت کبریٰ کے زمانے میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے اسی طرح جامع الشرائط فقیہ کے علاوہ کوئی شخص کسی کام کا حکم دے اور امام علیہ السلام سے منسوب کرے کہ امام علیہ السلام نے مجھے کہا ہے کہ میں لوگوں کو اس کا حکم دوں تو اسے بھی جھٹلایا جائے۔

ظہور کا وقت معین نہ کرنا:

روایات میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا گیا پس اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے جھٹلایا جائے۔

مال امام علیہ السلام کی ادائیگی:

غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے خصوصاً خمس کا جو حصہ مال امام علیہ السلام ہے اسے امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر خرچ کرےں۔(یہ حکم علماءکے لیے ہے عوام پر خمس کا نائب امام علیہ السلام یعنی مجتہد تک پہنچا دینا ہی کافی ہے)

امام العصر علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے جیسا کہ حدیث معراجیہ میں ہے اور یہ اظہار صرف زبان سے ہی نہ ہو بلکہ اعضاءو جوارح سے بھی ہو جیسا کہ خود امام مہدی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ فلیعمل کل امری منکم ما یقرب بہ من محبنا پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ایسے کام کرے جو تمہیں ہماری محبت سے قریب تر کریں۔

آپ علیہ السلام کے فراق میں غمگین رہنا:

سچا مومن امام علیہ السلام کی جدائی اور فراق پر نہ صرف یہ کہ غمگین رہتا ہے بلکہ گریہ کناں رہتا ہے دعائے ندبہ کے کلمات ہیں کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ یہ بد قسمت آنکھیں ساری خلقت کا تو مشاہدہ کریں لیکن تیرے دیدار سے محروم رہیں۔

کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ تیرے غیر سے جواب سنوں اور تےری گفتار سے محروم رہوں۔

کس قدر مشکل ہے میرے لیے کہ تیری یاد میں گریہ کروں اور لوگ تیری یاد سے غافل ہوں۔

آیا کوئی ہے میری مدد کرنے والا؟ جو میرے ہم گریہ و نالہ ہو سکے؟

آیا کوئی ایسی چشم اشک بار ہے کہ میری آنکھوں کا ساتھ دے سکے؟

اے فرزند احمد! کیا آپ علیہ السلام تک پہنچنے کی کوئی راہ ہے؟

آپ علیہ السلام کی غیبت پر اظہار رضایت:

مومن کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے معاملے میں تسلیم ہو اور یہ عقیدہ رکھے آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے غائب ہیں اس پر رضایت اور سر تسلیم خم کرنا چاہیے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے اور نہ ہی آپ علیہ السلام کی طولانی غیبت سے مایوس ہو۔

امام علیہ السلام کی مظلومیت پر افسردہ ہونا:

شیخ صدوق نے اکمال الدین میں حدیث نقل کی ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اورہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔

ایمان پر ثابت قدم رہنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ذمہ داری ہے کہ دین پر مستحکم رہے ایمان کی بقاءکے لیے کوشش کرتا رہے باطل کی رنگینیوں پر نہ جائے۔ ایک مرتبہ خاتم الانبیائ نے اصحاب سے سوال کیا سب سے قابل تعجب ایمان کس کا ہے اصحاب نے کہا انبیاءکا آپ نے فرمایا انبیاءتو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں ان کا ایمان جتنا بھی زیادہ ہو ان کے لیے مناسب ہے اس میں تعجب کی کیا بات؟ پھر اصحاب نے عرض کیا ملائکہ کا ایمان آپ نے فرمایا ملائکہ تو معصوم مخلوق ہیں ان کے ایمان میں تعجب کیسا؟ پھر اصحاب نے عرض کی یا رسول ہمارا ایمان قابل تعجب ہے کہ ہم نے آپ سے دین کو حاصل آپ نے فرمایا تمہارے ایمان میں تعجب کی کیا بات ہے میں تمہارے درمیان موجود ہوں تم مجھے دیکھ رہے ہو مجھ سے کسب فیض کر رہے ہو پھر اصحاب نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہی ارشاد فرمائیے کہ کس کا ایمان قابل تعجب ہے آپ نے فرمایا میری امت کے وہ افراد جو میرے آخری فرزند کے زمانے میں ہوں گے ان کا ایمان قابل تعجب ہے اس لیے کہ زمانہ اتنا نازک آجائے گا کہ ہاتھ پر انگارہ رکھنا آسان ہو گا لیکن ایک دن اپنے ایمان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

(نوٹ: مندرجہ بالا واقع میں مفہوم حدیث بیان کیا گیا ہے بعینہ الفاظ نہیں)

مصائب کو برداشت کرنا:

امت کا فریضہ ہے کہ دشمنوں کی طرف سے جو مصائب آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو مومن بارہویں امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کے جھٹلانے پر صبر کرے برداشت سے کام لے اور نہ گھبرائے وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول خدا کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)

امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔

امام مہدی علیہ السلام کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔

امام علیہ السلام کے اعوان و انصار میں سے ہونے کی دعا مانگنا۔

مجالس میں یا اجتماعات میں امام علیہ السلام کے لیے جب دعا مانگی جائے تو بلند آواز میں مانگی جائے۔

خدا سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا! مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم آل محمد کی ملاقات و زیارت نصیب فرما۔

امام علیہ السلام کے مشن کی ترویج کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ علوم محمد و آل محمد کی نشرو اشاعت کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں صحیح عقائد کو راسخ کیا جائے اور گمراہی و بے راہ روی سے بچایا جائے۔

استعمار اور طاغوتی طاقتوں سے مرعوب نہ ہو اور نہ ہی اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا اثر قبول کرے بلکہ فحاشی اور عریانی کا مقابلہ کرنے کے نیٹ پر ایسے چینلز دکھائے جائیں جن پر ایسا اسلامی مواد نشر کیا جاتا ہو جو نوجوانان ملت کے فکر کو بھٹکنے سے بچائے خصوصاً موجودہ دور جو ترقی کا دور ہے میڈیا کے ذریعے افراد کو مقصد حیات سے غافل کیا جا رہا ہے تو یقینا امراءاور علماءکے تعاون سے میڈیا ہی کے ذریعے ایسے پروگرامز کی نشرواشاعت کی ضرورت ہے جو ملت کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہیں۔

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ایک ذمہ داری اہم ذمہ داری منجد ہو کر رہنا ہے اگر ملت خود ہی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی یا تعصبات کی نظر ہو جائے گی تو پھر کامیابی نا ممکن ہے امت کا شرعی فریضہ یہ ہے کہ یہ اختلافات سے بالاتر ہو کر امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کریں اور دشمن کو خود پر غالب نہ آنے دیں اس قدر منظم اور منجد ہو جائیں دشمن ٹکرا کر خود ہی تباہ و برباد ہو جائے۔

امام علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے اپنے بچوں، اداروں اور مساجد وغیرہ کے نام امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھیں بلکہ کوشش کریں کہ اپنے علاقوں، گلیوں اور چوک وغیرہ کے نام بھی امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھے۔

اور انشاءاللہ یہ عمل ہمارے مصلح اور ہادی کی محبت و عنایت ہماری جانب ملتفت کرنے کا سبب بن جائے گا۔

دنیاداروں کے ساتھ زیادہ میل جول اور آمد و رفت نہ رکھے بلکہ ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھے جو امام علیہ السلام کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔

مندرجہ ذیل دعا کا ورد کرے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ کلمات وارد ہوئے ہیں۔

یااللہ یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک بحرمة محمد و آلہ الاطہارترجمہ : خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ کرے تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔

عن الی عبداللہ علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل من یوت الحکمہ فقد اوتی خیرا کثیرا فقال طاعة اللہ و معرفة الامام فرمایاامام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اس حکمت مراد اللہ کی اطاعت اور معرفت امام علیہ السلام ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۲۱۲)

اطاعت:

قرآن و حدیث کی رو سے امام علیہ السلام کی اطاعت کو مطلقاً واجب قرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ ذمہ داری اور بھی سنگین ہو جاتی ہے عن الی جعفر علیہ السلام فی قول اللہ عزوجل واٰتمنا ھم ملکا عظیما قال الطاعة المفروضة۔

آیت مبارکہ اور ہم نے ان کو ملک عظیم دیا کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد ہماری وہ اطاعت ہے جو لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۴۱۲)

تعجیل ظہور کی دعا:

حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور میں جلدی کی کثرت سے دعائیں مانگیں کیونکہ خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ اکثر و الدعاءبتعجیل الفرج فان ذلک فرجکم ظہور میں تعجیل کے لیے بہت زیادہ دعا کرو کیونکہ تمہارے امور کی کشائش اسی میں ہے علاوہ ازیں دعا فرج کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے جو اکثر دعاؤں کی کتابوں میں درج ہے۔

الہیٰ عظم البلاءو برح الخفائ۔

انتظار:

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار افضل ترین عبادت ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران ان کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کا اجرو ثواب آئمہ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہمارے امر (حکومت) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہوتا ہے بس یہ انتظار اس طور ہونا چاہیے کہ کسی لمحہ بھی غافل نہ ہوا جائے صادق علیہ السلام آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ وانتظرو الفرج صباحاً و مساءتم لوگ صبح و شام ظہور کا انتظار کرو۔

اشتیاق زیارت:

شیعان اہلبیت علیہ السلام کا امام علیہ السلام کی غیبت میں ایک خاص فریضہ آپ کے جمال مبارک کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا بھی ہے ہر وقت دل میں ان کے دیدار کی تڑپ رہنی چاہیے اپنے آقا سے محو گفتگو ہونے کے لیے ہر جمعہ کی صبح بعد نماز فجر دعائے ندبہ (جو امام علیہ السلام کے فراق میں تڑپنے والوں کا نوحہ ہے) کی تلاوت کرے جس کے کلمات ہیں بارالہاٰ! ہم تیرے نا چیز بندے تیرے اس ولی کی زیارت کے مشتاق ہیں کہ جو تیری و تیرے رسول کی یاد تازہ کرتا ہے۔

دعا برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک سچے مومن اور شیعہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی دعاؤں میں اپنے ہادی اور آقا کی سلامتی کا خواہاں رہے خاص طور سے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کثرت ہے جس دعا کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے اللھم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیہ السلام صلواتک علیہ و علی آبائہ فی ھذة الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتی تسکنہ ارضک طوعا و تمتعہ فیھا طویلا۔

صدقہ برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک اور پسندیدہ فریضہ جس کی تاکید ہمارے پیشوایان دین نے کی ہے وہ ہے امام علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا ہے صدقہ بذات خود ایک محبوب عمل ہے اور سلامتی امام علیہ السلام کی نیت سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک امام علیہ السلام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں اُحد کے پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

اتباع نائبین امام علیہ السلام:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کا کوئی شخص بھی نائب خاص نہیں بلکہ فقہاءجامع الشرائط ہی حضرت علیہ السلام کے عام نمائندے ہیں چنانچہ ان کی اتباع واجب ہے (جسے فقہی اصطلاح میں تقلید کا نام دیا جاتا ہے) خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ہماری غیبت کبریٰ میں پیش آنے والے حالات و مسائل کے سلسلہ میں ہماری حدیثوں کو بیان کرنے والے علماء(فقہائ) کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ وہ اس ہماری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔

امام علیہ السلام کا نام لینے کی ممانعت:

امام آخر الزمان علیہ السلام کا خاتم الانبیا کے نام پر ہے لیکن احادیث میں حضرت کا نام پکارنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے حجت العصر علیہ السلام، مہدی علیہ السلام، قائم علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، امام غائب علیہ السلام وغیرھم۔

احتراماً کھڑے ہونا:

جب صاحب الزمان علیہ السلام کا تذکرہ آئے خصوصاً جب آپ کے القابات میں سے قائم علیہ السلام کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جانا سنت آئمہ علیہ السلام ہے کیونکہ جب دعبل خزاعی نے آٹھویں امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنا قصیدہ پیش کیا تھا تو جیسے ہی آخری امام علیہ السلام کا نام آیا تو آٹھویں امام علیہ السلام احتراماً کھڑے ہو گئے تھے۔

مشکلات میں امام زمانہ علیہ السلام کو وسیلہ بنانا:

خدا سے سوال کرتے وقت خصوصاً پریشانیوں میں امام علیہ السلام کے حق کی قسم دے کر حاجات طلب کرنا یا امام علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ کی صورت میں حاجات پیش کرنا خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے وبی یدفع اللہ عزوجل البلاءعن اھل و شیعتی اور خدائے عزوجل میرے ذریعے ہی میرے اہل و عیال اور میرے شیعوں سے مصائب کو دور کرتا ہے۔

امام علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا:

حضرت مہدی علیہ السلام پر درودو سلام زیادہ بھیجا جائے خاتم الانبیاءسے ابن حجر مکی نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا لا تصلو اعلی الصلاة البترا فقالوا وبا الصلوة البترا قال تقولون اللھم صل علی محمد بل قولا اللھم صل علی محمد وآل محمد۔ مجھ پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجا کرو اصحاب نے عرض کی وہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا فقط اللھم صل علی محمد کہو اس سے آگے نہ پڑھو اور رک جاؤ بلکہ یوں کہو اللھم صل علی محمد و آل محمد۔

(صواعق محرقہ ص۴۴۱) اور چونکہ یہ آخری امام علیہ السلام کا دور ہے تو خاص طورپر ہر نماز کے بعد آپ علیہ السلام پر درود و سلام پڑھا جائے۔

غیبت میں کثرت سے امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرنا:

غیبت کبریٰ میں امام علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت ہیں اپنی مجالس اجتماعات، محافل اور عبادات میں آپ علیہ السلام کے ذکر سے لوگوں کے دلوں کو تازہ کریں اور حضرت علیہ السلام کا حامی اور دوست بنائیں امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ہر مومن خود بھی تیار رہے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے۔

امام رض علیہ السلام جمعہ کے دن نماز ظہر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللھم اصلح عندک و خلیفتک بما اصلحت بہ انبیائک و رسلک و حقہ بملائکتک و ایدہ بروح القدس من عندک واسلکتہ من بین یدیہ و من خلفہ رصدا یحفظونہ من کل سوءو ایدتہ من بعد خوفہ امنا بعدک لا یشرک بک شیا ولا یجعل لا حد من خلقک علی ولیک سلطانا و اذن لہ فی جہاد عدوک وعدوہ واجعلنی من انصارہ ان علی کل شی قدیر۔

ترجمہ: پروردگارا! جن وسائل سے تو نے اپنے انبیاءاور مرسلین کے حالات کی اصلاح فرمائی ہے اپنے عہد خاص اور جانشین کے حالات کی بھی اصلاح فرما ملائکہ اس کے گرد رہیں اور روح القدس اس کی تائید کرے اس کے سامنے اور بس پشت ایسے محافظ رہیں جو اسے ہر مصیبت اور آفت سے بچاتے رہیں اس کا خوف امن سے تبدیل کر دے وہ تیرے عبادت میں سر گرم رہے اور شرک کاکوئی شائبہ نہ رہے کسی شخص کو تیرے ولی علیہ السلام پر اقتدار حاصل نہ ہو اور اسے اپنے اور اس کے دشمن سے جہاد کی اجازت دے دے اور ہمیں اس کے اعوان و انصار میں قرار دے تو کائنات کی ہر شئے پر قادر ہے۔

دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلح رہنا:

امام مہدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو دشمنوں سے جنگ کرنا پڑے گی ایک سچے منتظر کو چاہیے کہ انتظار کے ساتھ ساتھ جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۹۲)

امام علیہ السلام کی نیابت میں مستحبات کی انجام دہی:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا ایک فریضہ یہ بھی ہے جسے ہمارے اسلاف اور علماءانجام دینے میں بہت ہی اہتمام کیا کرتے تھے کہ شیعہ ہر مستحب عمل امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی نیت سے ادا کرے تلاوت قرآن پاک، نوافل نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام کی زیارت آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج و عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور اگر استطاعت رکھتا ہو تو عیدالاضحی کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت پڑھنا:

مومن کو چاہیے کہ ہر روز صبح نماز کے بعد امام صاحب العصر علیہ السلام کی یاد میں زیارت پڑھے۔(مفاتیح الجنان ص۱۴۵)

زیارت جامعہ کبیرہ پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے اور مفاتیح اور زیارات کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ (مفاتیح الجنان ص۷۴۵)

تجدید بیعت:

مومن کو چاہےے کہ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھے اور کہے اے امام علیہ السلام میں آپ کا مومن ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہے آپ کے انصار اور آپ کے مشن کی خاطر کام کرنے والوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں یا ہر روز نماز صبح کے بعد دعائے عہد پڑھ کر امام علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو مضبوط بنائیں۔(دعائے عہد مفاتیح الجنان ص۲۴۵)

توبہ کے پروگرام:

امت کے اعمال ہر روز یا ہر شب جمعہ امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ اعملو فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آیہ اعملوا.... الخ میں مومنوں سے کون مراد ہیں فرمایا وہ آئمہ ہیں۔(اُصول کافی ج۱ص۲۵۲)

انسان چونکہ غیر معصوم ہیں دن میں کئی گناہ انسان سے سر زد ہو جاتے ہیں تو ہر رات سونے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے گناہوں پر توبہ کرے تا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اعمالنامے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوں ان سے گناہ مٹ جائیں بلکہ غیبت کبریٰ میں توبہ کے اجتماعی پروگرام منعقد کرنے چاہیے کیونکہ اجتماعی عبادت قبولیت کے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی کئی گنا ہوتا ہے مثلاً ہر شب جمعہ کوئی مومن دعائے کمیل کا اہتمام کرے۔

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں:

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کس طرح اپنے مخالفین کو جواب دیں علماءکی ذمہ داری ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کو نابود کرنے کے لیے افراد امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تا کہ منظم ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں حدیث میں ہے کہ جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور فرمان رسول ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(اُصول کافی ج۱ص۶۳،۸۵)

جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا:

اگر کوئی غیبت کبریٰ کے زمانے میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے اسی طرح جامع الشرائط فقیہ کے علاوہ کوئی شخص کسی کام کا حکم دے اور امام علیہ السلام سے منسوب کرے کہ امام علیہ السلام نے مجھے کہا ہے کہ میں لوگوں کو اس کا حکم دوں تو اسے بھی جھٹلایا جائے۔

ظہور کا وقت معین نہ کرنا:

روایات میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا گیا پس اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے جھٹلایا جائے۔

مال امام علیہ السلام کی ادائیگی:

غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے خصوصاً خمس کا جو حصہ مال امام علیہ السلام ہے اسے امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر خرچ کرےں۔(یہ حکم علماءکے لیے ہے عوام پر خمس کا نائب امام علیہ السلام یعنی مجتہد تک پہنچا دینا ہی کافی ہے)

امام العصر علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے جیسا کہ حدیث معراجیہ میں ہے اور یہ اظہار صرف زبان سے ہی نہ ہو بلکہ اعضاءو جوارح سے بھی ہو جیسا کہ خود امام مہدی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ فلیعمل کل امری منکم ما یقرب بہ من محبنا پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ایسے کام کرے جو تمہیں ہماری محبت سے قریب تر کریں۔

آپ علیہ السلام کے فراق میں غمگین رہنا:

سچا مومن امام علیہ السلام کی جدائی اور فراق پر نہ صرف یہ کہ غمگین رہتا ہے بلکہ گریہ کناں رہتا ہے دعائے ندبہ کے کلمات ہیں کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ یہ بد قسمت آنکھیں ساری خلقت کا تو مشاہدہ کریں لیکن تیرے دیدار سے محروم رہیں۔

کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ تیرے غیر سے جواب سنوں اور تےری گفتار سے محروم رہوں۔

کس قدر مشکل ہے میرے لیے کہ تیری یاد میں گریہ کروں اور لوگ تیری یاد سے غافل ہوں۔

آیا کوئی ہے میری مدد کرنے والا؟ جو میرے ہم گریہ و نالہ ہو سکے؟

آیا کوئی ایسی چشم اشک بار ہے کہ میری آنکھوں کا ساتھ دے سکے؟

اے فرزند احمد! کیا آپ علیہ السلام تک پہنچنے کی کوئی راہ ہے؟

آپ علیہ السلام کی غیبت پر اظہار رضایت:

مومن کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے معاملے میں تسلیم ہو اور یہ عقیدہ رکھے آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے غائب ہیں اس پر رضایت اور سر تسلیم خم کرنا چاہیے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے اور نہ ہی آپ علیہ السلام کی طولانی غیبت سے مایوس ہو۔

امام علیہ السلام کی مظلومیت پر افسردہ ہونا:

شیخ صدوق نے اکمال الدین میں حدیث نقل کی ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اورہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔

ایمان پر ثابت قدم رہنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ذمہ داری ہے کہ دین پر مستحکم رہے ایمان کی بقاءکے لیے کوشش کرتا رہے باطل کی رنگینیوں پر نہ جائے۔ ایک مرتبہ خاتم الانبیائ نے اصحاب سے سوال کیا سب سے قابل تعجب ایمان کس کا ہے اصحاب نے کہا انبیاءکا آپ نے فرمایا انبیاءتو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں ان کا ایمان جتنا بھی زیادہ ہو ان کے لیے مناسب ہے اس میں تعجب کی کیا بات؟ پھر اصحاب نے عرض کیا ملائکہ کا ایمان آپ نے فرمایا ملائکہ تو معصوم مخلوق ہیں ان کے ایمان میں تعجب کیسا؟ پھر اصحاب نے عرض کی یا رسول ہمارا ایمان قابل تعجب ہے کہ ہم نے آپ سے دین کو حاصل آپ نے فرمایا تمہارے ایمان میں تعجب کی کیا بات ہے میں تمہارے درمیان موجود ہوں تم مجھے دیکھ رہے ہو مجھ سے کسب فیض کر رہے ہو پھر اصحاب نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہی ارشاد فرمائیے کہ کس کا ایمان قابل تعجب ہے آپ نے فرمایا میری امت کے وہ افراد جو میرے آخری فرزند کے زمانے میں ہوں گے ان کا ایمان قابل تعجب ہے اس لیے کہ زمانہ اتنا نازک آجائے گا کہ ہاتھ پر انگارہ رکھنا آسان ہو گا لیکن ایک دن اپنے ایمان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

(نوٹ: مندرجہ بالا واقع میں مفہوم حدیث بیان کیا گیا ہے بعینہ الفاظ نہیں)

مصائب کو برداشت کرنا:

امت کا فریضہ ہے کہ دشمنوں کی طرف سے جو مصائب آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو مومن بارہویں امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کے جھٹلانے پر صبر کرے برداشت سے کام لے اور نہ گھبرائے وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول خدا کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)

امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔

امام مہدی علیہ السلام کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔

امام علیہ السلام کے اعوان و انصار میں سے ہونے کی دعا مانگنا۔

مجالس میں یا اجتماعات میں امام علیہ السلام کے لیے جب دعا مانگی جائے تو بلند آواز میں مانگی جائے۔

خدا سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا! مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم آل محمد کی ملاقات و زیارت نصیب فرما۔

امام علیہ السلام کے مشن کی ترویج کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ علوم محمد و آل محمد کی نشرو اشاعت کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں صحیح عقائد کو راسخ کیا جائے اور گمراہی و بے راہ روی سے بچایا جائے۔

استعمار اور طاغوتی طاقتوں سے مرعوب نہ ہو اور نہ ہی اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا اثر قبول کرے بلکہ فحاشی اور عریانی کا مقابلہ کرنے کے نیٹ پر ایسے چینلز دکھائے جائیں جن پر ایسا اسلامی مواد نشر کیا جاتا ہو جو نوجوانان ملت کے فکر کو بھٹکنے سے بچائے خصوصاً موجودہ دور جو ترقی کا دور ہے میڈیا کے ذریعے افراد کو مقصد حیات سے غافل کیا جا رہا ہے تو یقینا امراءاور علماءکے تعاون سے میڈیا ہی کے ذریعے ایسے پروگرامز کی نشرواشاعت کی ضرورت ہے جو ملت کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہیں۔

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ایک ذمہ داری اہم ذمہ داری منجد ہو کر رہنا ہے اگر ملت خود ہی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی یا تعصبات کی نظر ہو جائے گی تو پھر کامیابی نا ممکن ہے امت کا شرعی فریضہ یہ ہے کہ یہ اختلافات سے بالاتر ہو کر امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کریں اور دشمن کو خود پر غالب نہ آنے دیں اس قدر منظم اور منجد ہو جائیں دشمن ٹکرا کر خود ہی تباہ و برباد ہو جائے۔

امام علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے اپنے بچوں، اداروں اور مساجد وغیرہ کے نام امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھیں بلکہ کوشش کریں کہ اپنے علاقوں، گلیوں اور چوک وغیرہ کے نام بھی امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھے۔

اور انشاءاللہ یہ عمل ہمارے مصلح اور ہادی کی محبت و عنایت ہماری جانب ملتفت کرنے کا سبب بن جائے گا۔

دنیاداروں کے ساتھ زیادہ میل جول اور آمد و رفت نہ رکھے بلکہ ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھے جو امام علیہ السلام کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔

مندرجہ ذیل دعا کا ورد کرے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ کلمات وارد ہوئے ہیں۔

یااللہ یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک بحرمة محمد و آلہ الاطہار


بشکریہ- ف زیدی

نظرات بینندگان
captcha