شب قدر؛ تقدیر لکھنے کی رات

IQNA

شب قدر؛ تقدیر لکھنے کی رات

10:10 - May 01, 2021
خبر کا کوڈ: 3509219
روایات کے مطابق شب قدر، انیسویں، اکیسویں، تئیسویں یا ستائیسویں شب ماہ رمضان ہے اس رات کی بہت فضیلت ہے کیونکہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔

خداوند عالم نے اپنے حکیمانہ نظام کی بنیاد پر جہان کو اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ تمام چیزوں کا ایک دوسرے کے درمیان میں خاص رابطہ برقرار ہے اس نظام خلقت میں ہر چیز حکمت الہی کی بناء پر خاص اندازہ رکھتی ہے اور کوئی بھی چیز بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہے بلکہ یہ جہان ریاضی قانون کی بنیاد پر منظم ہے ۔

 

شب قدر کی اہمیت اور اس کی برکات کو بیان کرتے ہوئے اہل لغت کہتے ہیں : قدر لغت میں اندازہ اور اندازہ گیری کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

 

تقدیر کے معنی بھی اندازہ گیری اور معین کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں قدر جہان کی خصوصیت اور ہر اس چیز کے وجود کو کہ اس کی خلقت کیسے ہوئی ہے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

دوسرے جملوں میں اندازہ و ہر چیز کے وجود کو مشخص کرنے کو قدر کہا جاتا ہے۔

شب قدر  کے حوالے سے احادیث و روایات میں کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری ایام کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔

 

روایات کے مطابق شب قدر، انیسویں یا اکیسویں یا شب تئیسویں ماہ رمضان ہے ۔ اور اس رات کی بہت فضیلت ہے کیونکہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔

 

شب قدر میں انسان کی نیکی، برائی، ولادت، موت، رزق، حج، اطاعت، گناہ، خلاصہ یہ کہ جتنے بھی افعال اور واقعات اس سال میں اس کے اختیار سے انجام پائینگے وہ سب اسکی قسمت میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔

اس رات میں، آیندہ سال کے تمام امور، امام زمانہ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی و دوسروں کی تقدیر سے با خبر ہوتے ہیں۔

اس بارے میں کہ ماہ رمضان کی راتوں میں سے کون سی رات ہے ، بہت اختلاف ہے ، اوراس سلسلہ میں بہت سی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔ منجملہ : پہلی رات سترھویں رات ، انیسویں رات، اکیسویں رات، تیئسویں رات، اور ستائیویں رات اور انتیسویں رات۔

لیکن روایات میں مشہور و معروف یہ ہے کہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ۔ اسی لیے ایک روایت میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک کی آخری دس راتوں میں تمام راتوں کا احیاء فرماتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔

ایک روایت میں امام جعفر صاق علیہ السلام سے آیاہے کہ شب قدر اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ، یہاں تک کہ جب راوی نے اصرار کیا کہ ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات ہے اور یہ کہا کہ اگر میں ان دونوں راتوں میں عبادت نہ کر سکوں تو پھر کون سی رات کا انتخاب کروں“۔ تو بھی امام  نے تعین نہ فرمائی اور مزیدکہا: ”ماالیسر لیلتین فیما تطلب“اس چیز کے لیے جسے تو چاہتا ہے دو راتیں کس قدرآسان ہیں ؟ ۱

لیکن متعدد روایات میں جو اہل بیت کے طریقہ سے پہنچی ہیں زیادہ تر تیئسویں رات پر تکیہ ہوا ہے ۔ جب کہ اہل سنت کی زیادہ تر روایات ستائیسویں رات کے گرد گردش کرتی ہیں ۔

ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ آپ  نے فرمایا:

”التقدیر فی لیلة القدر تسعة عشر، و الابرام فی لیلة احدی و عشرین، و الامضاء فی لیلة ثلاث و عشرین“۔

”تقدیر مقدرات تو انیسوں کی شب کو ہوتی ہے ، اور ان کا حکم اکیسویں رات کو ، اور ان کی تصدیق او رمنظوری تیئسویں رات کو۔ ۲

اور اس طرح سے روایات کے درمیان جمع ہو جاتی ہے ۔

لیکن بہر حال ، اس وجہ کی بناء پر جس کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا، شب قدر کو ابہام کے ایک ہالے نے گھیر رکھا ہے۔

 

1۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۵ حدیث ۵۸۔

۲۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۶ حدیث ۶۲۔

نظرات بینندگان
captcha