حج؛ کرونا اور سعودی اقتصاد پر اثرات و مضمرات

IQNA

ایکنا رپورٹ؛

حج؛ کرونا اور سعودی اقتصاد پر اثرات و مضمرات

9:26 - July 19, 2021
خبر کا کوڈ: 3509834
تہران(ایکنا) مسلسل دو سالوں سے حج پابندی یا محدود حج کے باعث ریاض پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں جہاں دیگر مسائل کے علاوہ اقتصادی طور پر بھی انکو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ہر سال مذہبی سیاحت و زیارت سے ۸۵ ارب ریال سے زاید کا زر مبادلہ کماتا ہے اور بڑی تعداد میں زائرین و حجاج کی آمد سے انکو بڑی آمدنی حاصل ہوتی ہے، تیل کی درآمد کے بعد حج انکا دوسرا بڑا زریعہ آمدن ہے تاہم تیل کی قیمتوں کی کمی اور کورونا کی وجہ سے حج کی محدودیت نے انکے اقتصاد کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔

 

گرچہ کورونا ویکسین کا عمل شروع ہوچکا ہے تاہم حج اس سال بھی محدود کردیا گیا اور سعودی حکام کے مطابق اس سال ملک کے اندر سے ساٹھ ہزار حجاج سب کے سب ویکسین لے چکے ہیں۔

 

گذشتہ سال بھی کورونا کی وجہ سے صرف دس ہزار لوگ وہ بھی ملک کے اندر سے حج کی اجازت حاصل کرچکے تھے۔

حج؛ کرونا اور سعودی اقتصاد پر اثرات و مضمرات

نقصانات کا تخمینہ

سعودی فیصلوں کی وجہ سے سعودی عرب میں سیاحتی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں سے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جہاں سعودی کو حج و تیل کی درآمد سے بارہ ارب ڈالر زرمبادلہ ملتا ہے۔

 

ماضی میں بھی حج کئی بار روکا گیا ہے تاہم ۱۹۳۲ کے بعد سے پہلی بار حج کو اس صورتحال کا سامنا ہے۔

حج؛ کرونا اور سعودی اقتصاد پر اثرات و مضمرات

یہ مسائل بلاشبہ سعودی ولی عھد کے ویژن ۲۰۳۰ اصلاحات اور ڈیولپمنٹ پروگراموں کو شدید متاثر سکتے ہیں۔

 

ویژن 2030 کے مطابق سعودی اقتصاد کو تیل کی وابستگی سے نکالنا تھا تاہم کورونا اور تیل کی گرتی قیمت کے ساتھ حج محدودیت نے اس پروگرام کو شدید متاثر کیا ہے۔

حج؛ کرونا اور سعودی اقتصاد پر اثرات و مضمرات

سعودی کو توقع تھا کہ وہ سال ۲۰۳۰ تک چھ ملین غیر سیاح اور  ۳۰ ملین زایرین کی میزبانی کرے گا جس سے انہیں پچاس ارب ڈالر سے زاید آمدنی حاصل ہوگی۔

 

حجاج پابندی سے سعودی شدید متاثر ہوگا کیونکہ فی کس زائر سے سعودی کو کم از کم  ۷۰۰۰ ریال (۱۸۶۶ ڈالر) آمدنی حاصل ہوتا تھا اور فی کس ایوریج زایر یہاں ۴ سے ۵ هزار ڈالر خرچہ کرتا تھا۔

 

سروے کے مطابق زایرین کے اخراجات کو چالیس فیصد رہایش پر خرچ ہوتا جبکہ اکتیس فیصد خرچہ آمد و رفت پر صرف ہوتا ہے۔

دس فیصد اخراجات خوراک اور پانچ فیصد دیگر امور پر صرف کیا جاتا ہے جبکہ قربانی اور دیگر شاپنگ وغیرہ سے خاصا در آمد حاصل ہوجاتا ہے۔

 

حجاج پر پابندی سے کم از کم دو لاکھ افراد بیکار ہوچکے ہیں جو مختلف ہوٹل، ٹرانسپورٹ، سیکورٹی سروسز اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔

 

چمیبر آف کامرس میں امور حج کے نمایندے محمد سعد القرشی کے مطابق صرف مکہ میں ۳۰۰ ٹرانسپورٹ کمپنیاں کام کررہی ہیں۔

 

 

امریکی اخبار «وال اسٹریٹ جرنل» کے مطابق ہر سال حج سے دیگر فواید کے علاوہ سعودی کو سیاسی و مذہبی حوالے سے خاص حیثیت مل جاتا ہے جبکہ اربوں ڈالر آمدنی اپنی جگہ۔

 

دیگر ممالک میں حج سے وابستہ کمپنیاں بھی اس حالت سے شدید متاثر ہوئی ہیں اور مصر میں ایسی ہی ایک کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ اگرچہ حفاظتی حوالے سے اقدامات کیے گیے ہیں تاہم اقتصادی مسائل سے ہماری کمپنیاں آخری سانسیں لے رہی ہیں۔

 

تلافی کی سعودی کوششیں

سعودی عرب نے متاثر افراد اور کمپنیوں کی مدد کے لیے مختلف کاوشیں کی ہیں تالہ کورونا بحران سے متاثرہ ان کمپنیوں کے نقصانات کو کم کرسکے جنمیں سالانہ ٹیکسیز میں کمی اور مالی قرضوں کی واپسی میں مدت کو بڑھانا شامل ہے۔

 

ٹیکسوں میں تین گنا اضافہ

سعودی عرب نے کورونا سے متاثر اقتصاد کو سہارا دینے کے لیے ٹیکسوں میں تن گنا اضافہ کیا ہے اور سعودی میڈیا کے مطابق ٹیکسوں میں پانچ سے پندرہ فیصد مزید اضافہ ہوچکا ہے اور سعودی شہریوں کو دیے جانے والے الاونس بھی ختم کردیا گیا ہے۔

سعودی شہریوں کو ملنے والی رقم ہزار ریال یا دوسو ستاسٹھ ڈالر ہے جو سعودی شہریوں کو قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایک مدد کے طور پر دیا جاتا ہے۔

قابل ملاحظہ نکتہ یہ ہے کہ چند عرصے قبل سعودی وزارت خزانہ کے مطابق فنڈ کی کسر کی رقم ۹۸ ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو سعودی عرب کی تاریخ میں بے نظیر ہے۔/

رپورٹ الهام مؤذنی

3983263

نظرات بینندگان
captcha