ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق قندوز کی سید آباد مسجد میں شہادتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور طالبان کے آنے کے بعد یہ قندوز میں پہلا واقع ہے۔
خودکش دھماکہ نماز جمعہ کے دوران ہوا اور زرایع کے مطابق داعش واقعے کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے اور بتایا گیا کہ ممحد اویغور نامی شخص نے یہ حملہ کیا ہے۔
قندوز مجرموں کو سخت سزا ہوگی
طالبان ترجمان ذبیحالله مجاهد نے جمعہ کی نماز میں اس دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مجرموں کو سخت ترین سزا ضرور ملے گی۔
انکا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کا عمل شروع ہوچکا ہے اور جلد ملوث افراد گرفت میں ہوں گے۔
دیگر ممالک کا رد عمل
وزارت امور خارجه اسلامی جمہوریہ ایران اور کابل میں ایرانی سفارت خانے نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پسماندگان سے ہمدردی کا اظھار کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیبزاده نے بیان میں کہا کہ ہر قسم کی دہشت گردی قابل مذمت ہے۔
آیتالله صافی گلپایگانی: اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری خاموش کیوں
شیعہ مرجع تقلید حضرت آیتالله العظمی صافی گلپایگانی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اس وحشیانہ ظلم روکنے میں کردار ادا کریں اور تمام مسلمان ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی واقعے پر افسوس کا اظھار کرتے ہوئے ہمدردی کا اظھار کیا۔
امریکی وزارت خارجہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کو زندگی کا حق حاصل ہے۔
سابق صدر حامد کرزئی، عبدالله عبدالله، نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے اور حملے کو اسلامی اور انسانی اقدار کی منافی قرار دیا ہے جس کا مقصد امن کی فضا کو مخدوش کرنا ہے۔
شہدا کی تدفین
افغان میڈیا کے مطابق حالات کے خوف سے پانچ چھ شہدا کو بڑے اجتماع کے بغیر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔
قندوز کے علاقے سیدآباد میں پورا علاقہ عزادار ہے اور ہر گھر سے ماتم کی صدا آرہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر گھر سے بیٹا، باپ یا خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شہید ہوچکا ہے اور ایک بوڑھے باپ کا تین بیٹا واقعے میں شہید ہوچکے ہیں جس کے رونے کی آواز سے ہر دل غمزدہ ہے۔
محمد جمعہ نامی بوڑھے باپ کا ایک بیٹا حافظ قرآن تھا جو روتے ہوئے فریاد کرتا ہے:
«اگر میرے گھر کے تمام افراد شہید ہوتے تو مجھے اس قدر دکھ نہیں ہوتا کاش میرا حافظ بیٹا زندہ ہوتا جو ستر شاگردوں کو درس قرآن دیتا ، اس نے ہم سب کو اکیلا کردیا.»