لسان الغیب حافظ شیرازی ، عرفان و شعر کی دنیا کا بے تاج بادشاہ

IQNA

یوم حافظ

لسان الغیب حافظ شیرازی ، عرفان و شعر کی دنیا کا بے تاج بادشاہ

12:52 - October 15, 2021
خبر کا کوڈ: 3510429
حافظ قرآن شاعر کی شاعری میں عرفان اور شعری خصوصیت میں سے کسی ایک کی برتری کا فیصلہ مشکل ہے۔

زحافظان جھان کس چوبندہ جمع نکرد

لطائف حکیمی با نکات قرآنی

اگر ہم سے پوچھا جائے کہ کیا حافظ ایک عارف ہے؟ کیا جواب دیں گے اور اسی طرح سوال کیا جائے کہ کیا حافظ ایک شاعر ہے تو کیا جواب ہوگا؟ لگتا ہے کہ کسی کو شک نہیں ہوگا کہ اگر دونوں سوالوں کا مثبت جواب دیا جائے۔ تاہم اگر ان دونوں سوالوں کو اس منظر سے دیکھا جائے کہ یہ دو سوال ہے اور ہر ایک کو اس کے تناظر میں جواب دیا جائے تو عرفان اور شاعری کی دنیا کے تناظر میں الگ سے جواب دینا ہوگا۔ دونوں سوالوں کے جواب میں زرا دقت سے جواب دینا ہوگا یا ایسا جواب دیا جائے کہ حافظ ایک شاعر عارف یا عارف شاعر ہے یعنی حافظ کی شاعری اور عرفان دونوں کو مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ انکی غزلیات میں غور و فکر کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بزرگ ہستی دونوں میدانوں میں ایسا کمال کا ہنر پیش کرتا ہے کہ ان دونوں شعبوں کو الگ کرنا مشکل ہے اور پڑھنے والا آسانی سے ان کو الگ نہیں کرسکتا۔ ایک اور جگہ میں نے کہا تھا کہ حافظ کی شاعری میں یہ دونوں میدان میں" اور" کا حرف بھی ایک رکاوٹ دکھائی دیتا ہے اور ان دونوں شعبوں میں ایک کو دوسرے پر برتری یا بلند پیش کرنا دقت طلب ہے اور اسے ایک بار شاعر عارف اور دوسری بار عارف شاعر کہنا ہوگا۔

مطلب کو صاف کرنے میں توجہ دینی ہوگی کہ اسلامی عرفان فارسی ادب میں وہ حقیقت ہے کہ جو بھی اس میدان سے واقف ہے بخوبی جانتا اور اس کو قبول کرتا ہے کہ فارسی زبان و ادبیات کا ایک عظیم سرمایہ وہی عرفانی پیغامات ہیں جو اس دری زبان کے آغاز سے نظم و نثر میں اس زبان کے ادبیات میں شامل ہوچکے ہیں۔ کون ایسا شخص ہے جو محمد بن منور کی کتاب اسرارالتوحید یا ہجویری کی کشف المحجوب کو فارسی کی اثرمنثور کے طور پر نہ سمجھے اور انکی عرفانی اور ادبی پہلووں کو درک نہ کرے، کونسا ادیب ہے جو سنائی کی رفیع حدیقہ اور عطار کی منطق الطیر اور  دیگر مثنویوں اور مولانا کی مثنوی شریف کو نہ سمجھے اور اور یہ ایمان نہ رکھے کہ اگر ایسے گہرے عرفانی آثار ادبیات کی تاریخ تحول میں موجود نہ ہوتے تو ادبیات میں کیا باقی بچتے؟

لسان الغیب حافظ شیرازی ، عرفان و شعر کی دنیا کا بے تاج بادشاہ

لہذا اسلامی عرفان کو فارسی ادب کی تحول و ترقی اور محتوا آفرین مواد کی تاریخ میں کارساز کردار حاصل ہے اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے تمام ادبیوں نے اس بات پر اصرار نہیں کیا ہے کہ وہ دونوں شعبوں میں یکجا مہارت حاصل کریں اور دونوں میدانوں میں برابر مہارت کے مالک بنیں۔ نمونے کے طور پر شبستری کی کتاب گلشن راز کو دیکھے جو ایک منظومے کے طور پر ایک مکمل عرفافی اثر ہے جو ابن عربی کے مکتب سے متاثر عرفانی شاہکار ہے جو ایک درسی کتاب کے طور پر جامع عرفانی کتاب شمار ہوتی ہے۔ یہ ایک منظوم اثر ہے جو شعر کے قالب میں کہا گیا ہے تاہم شیخ محمود شبستری اس فکر میں نہ تھے کہ شاعری کو بھی اس کتاب کے عرفافی پیغامات کے ہم پلہ اوج پر کہا جائے جیسا کہ گلشن راز کے آغاز میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ کسی طرح شعری صلاحیت کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گیی ہے بلکہ منظوم انداز میںن عرفانی نکات کو پیش کرنا کتاب کا ہدف قرار دیا گیا ہے اور آسان الفاظ میں گلشن راز ایک منظوم اسلامی عرفان ہے جسمیں شعر کی خوبصورتی سے عرفانی پیغامات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گیی ہے۔

ایک اور نمونہ حدیقہ اور عطار کے بعض مثنوی اور خود مثنوی شریف بھی اس خصوصیت سے مستثنی نہیں اور ان میں زیادہ تر شعر و ادب کی خصوصیات کو اہمیت دینے کی بجائے عرفانی پیغامات کو نمایاں کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔ مثنوی شریف اور غزلیات شمس کو مقابل رکھا جائے تو اس فرق کو بخوبی درک کیا جاسکتا ہے۔ غزلیات شمس میں مولوی کی کوشش ہے کہ شعری پہلو کو مدنظر رکھا جائے تاکہ اپنے کمال اور ہنر کو عرفانی پیغامات کے سانچے میں پیش کریں جب کہ مثنوی میں عرفافی پہلووں کو مدنظر رکھا گیا ہے تاہم یقینی بات ہے کہ کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مثنوی شریف یا حدیقہ یا منطق الطیر میں پایے کی شاعری موجود نہیں یا کم ہے۔ انہیں آثار میں بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ اسی شاعری کی گیی ہے جو شاعری اور عرفانی ہر دو پہلو سے قابل تحسین ہے، مگر نئ نامہ جو مثنوی کے آغاز میں موجود ہے اس میں عرفانی شاہکار کے ساتھ ہجر کے پیغام، ہبوط آدم اور قرب الہی احسن طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے اس میں کمال کی فارسی شاعری نہیں؟ بالکل مگر بات یہ ہے کہ مولوی مثنوی میں زیادہ تر اپنے پیغام کو منتقل کرنے کے درپے ہیں اور کیا بہتر کہ اس کو ادبی تناظر کے ساتھ شعر کے قالب میں پیش کریں۔

دید شخص عاقلی پرمایہ ای 

آفتابی در میان  سایہ ای

  مگر غزلیات شمس میں مولوی ایک ایسا شاعر ہے جو بحر کے تمام اوزان اور شاعری کے خم و پیچ اور ظریف نکات کو بہت باریک بینی یا دقت نظر سے سامنے رکھتے ہیں بہ نسبت عرفانی پیغامات کے۔ لہذا انکی غزلیات کی دنیا میں غزل کی شاعری انکی عرفانی دنیا سے الگ تناظر میں دیکھا جاسکتا ہےجسیے کہ کہا جاسکتا ہے کہ مثنوی عرفانی تعلیمات کا اثر اور دیوان شمس عرفانی شاعری کا اثر ہے جسمیں غزل کو اولویت حاصل ہے

حافظ کی طرف جائے تو میرا خیال ہے کہ حافظ ایک عظیم اور مایہ ناز عارف ہے مگر یہ عارف ایسا شخص ہے جو بہت گہرے عرفانی نکات کو غزلیات کے پیرایے میں خوبصورتی سے منتقل کرتا ہے اور خود وہ عجیب انداز میں اصرار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں پر ثابت کریں کہ جس طرح سے وہ عرفان شناس ہے اسی انداز کے وہ شعرشناس بھی ہے۔ لہذا  وہ کلام و زبان کے تمام امکانات سے مدد لیتا ہے تاکہ قاری جس طرح سے ان کے عارفانہ پیغامات سے بیدار اور ہوشیار ہوتا ہے ان کی شاعری سے سرمست اور شور و نشاط  بھی حاصل کرے اور اسی سبب حافظ کی کسی غزل سے اس بات کا امکان نہیں کہ انکی شاعری اور عارفانہ مہارت کو جدا کیا جاسکے یا کسی ایک کو برتر قرار دیا جائے۔

حافظ شیرازی کا عرفان

ڈاکٹرعلی شیخ الاسلام

ترجمہ- بتعاون خانہ فرھنگ ج-ا-ایران کوئٹہ

نظرات بینندگان
captcha