آدم(ع)؛ پہلا انسان یا پہلا پیغمبر؟

IQNA

قرآنی شخصیات/ 1

آدم(ع)؛ پہلا انسان یا پہلا پیغمبر؟

10:16 - June 27, 2022
خبر کا کوڈ: 3512160
«آدم»(ع)، انسان کے آج کا معنوی باپ اور پہلا انسان یا پہلا پیغمبر ہدایت کے واسطے بنا۔

مذاہب ابراھیمی کے مطابق حضرت آدم(ع)  تمام انسانوں کے باپ ہیں اور اسلامی روایات کے مطابق حضرت آدم(ع)  پہلا انسان نہیں جس نے روئے زمین پر پاوں رکھا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے انسان موجود تھے  جو زمین پر آئے اور جنکی نسلیں نابود ہوچکی ہیں، آج کا انسان جو حضرت آدم(ع)  سے متعلق یا انکی اولاد ہے انکا گذشتہ انسانوں سے تعلق نہیں۔

 

قرآن، آدم(ع) کو پہلا منتخب بندہ قرار دیتا ہے: «إِنَّ اللّهَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ... (آل‌عمران: 33) اور اسی لیے مسلمان جب نبوت کے آغاز و انجام کی بات کرتا ہے تو «اآدم تا خاتم» کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ حضرت آدم(ع)  کے انتخاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خدا نے کبھی بھی ہدایت کے بغیر نہیں رکھا ہے۔  «آدم» کا نام  25   بار قرآن کریم کے  9 سوروں میں آیا ہے . قرآن و روایات اسلامی میں آدم(ع) کے ابوالبشر( انسان کا باپ)، خلیفة‌ الله (جانشین خدا) اور صفی‌ الله (منختب شدہ خدا) کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔

ایک آیت میں انکی خلقت کو «گِل خالص» یعنی خالص مٹی سے بتایا گیا ہے: «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طینٍ» (مؤمنون: 12) اور اسی طرح ایک اور آیت میں «بدبودار کیچڑ» سے خلقت کی بات کی گیی ہے: «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ» (حجر: 26).

ان آیات میں خلقت کے مختلف مرحلوں کی بات کی گیی ہے یعنی آغاز میں مٹی اور پھر گارے سے  تبدیل اور پھر بدبودار کیچڑ یا گارے کی بات کی گئی ہے۔ پھر چکنے والے مادہ اور آخر میں خشک بدن تک کی بات ہوئی ہے۔

لہذا  آدم(ع) جسم اور روح سے بنا ہے: خداوند نے پہلے جسم اور پھر روح کو  خلق یا پھونکا. انسان بہترین شکل میں خلق کیا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فی أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (تین: 4) اور انسان وہ پہلی مخلوق ہے جس کی خلقت پر خدا نے خود کو مبارک باد پیش کیا: «فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» (مؤمنون: 14).

ایک اور آیت میں حضرت عیسی(ع) کی خلقت کو آدم کی خلقت کی طرح بتایا گیا: «إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ» (آل‌عمران: 59).

نظرات بینندگان
captcha