اعتدال پسندی؛ اصلاح معاشرے کا قرآنی نکتہ

IQNA

قرآن کیا کہتا ہے/ 24

اعتدال پسندی؛ اصلاح معاشرے کا قرآنی نکتہ

9:35 - August 04, 2022
خبر کا کوڈ: 3512441
تہران ایکنا- میانہ روی سے روگرانی کا نتیجہ فساد و تباہی ہے اور قرآن نے اسراف سے منع کیا ہے اور اعتدال پسندی کو نسخہ بتایا ہے۔

ایکنا نیوز- اعتدال پسندی یا میانہ روی اسلامی لائف اسٹائل کا اعلی نمونہ ہے اور اسراف یا فضول خرچی سے دوری اس کا نقطہ مقابل ہے، اسراف یعنی حد سے تجاوز اور قرآن میں 23 بار اس پر اشارہ اور اس کو فساد کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔

 

«إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ؛ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا» (الاعراف، ۳۱). ان لوگوں کو اپنی محبت کے دائرے سے نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ اعتدال پسندی سے دوری فساد کی وجہ بنتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان کا ہر قسم کا سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے۔

 

اسراف کی اقسام

1 - اسراف اجتماعی

«وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ؛  اور اسراف کرنے والوں کی پیروی نہ کرو کہ وہی لوگ فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے»(شعرا، ۱۵۱-۱۵۲)

تمام اجتماعی فساد، خونریزی، زیادہ طلبی، استکبار اور ظلم و اسراف معاشرے کے اعتدال برباد کرتے ہیں اور اختلاف و جھگڑوں کا سبب ہیں۔

  1. اسراف فکری

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ؛ خدا ہر کثرت سے شک کرنے والے کو راستے میں چھوڑ دیتا ہے۔ (غافر، ۳۴).

  1. اسراف سلوک

«قلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ؛ کہو: اے میرے بندو جنہوں نے اپنے پر اسراف اور ستم کیا؛ میری رحمت سے مایوس نہ ہوجانا کہ خدا سارے گناہ بخش دینے والا ہے۔» (زمر، ۵۳)

 

  1. اسراف دوسرے کے حقوق میں

دوسرے افراد کے اموال جیسے یتیم کے حق میں اسراف ظلم ہے: «وَابْتَلُوا الْيَتَامَى ... فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ؛ اور اگر یتیم کو فکری طور پر بالغ پالو تو انکے اموال دیں دو اور اسراف مت کرو اور جو توانگر ہے وہ خود داری کریں(یعنی مال کی نگہداری کی اجرت نہ لیں) اور جو تنگدست ہے عرف یا معمول کا اجر لیں» (نسا، ۶).

  1. اسراف سزا میں

«وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا؛ اور جس نفس کو خدا نے حرام کیا ہے حق کے علاوہ قتل مت کرو اور جو مظلوم مارے جائے اسکے سرپرست کو حق ہے لیکن اس چاہیے کہ وہ زیادہ روی نہ کریں» (اسرا، ۳۳).

  1. 5. اسراف یا فضول خرچی اموال میں

كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ؛ کھاو، پیو مگر فضول خرچی مت کرو کہ خدا فضول خرچی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (الاعراف، ۳۱).

  1. اسراف انفاق میں

«وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا؛ اور کو انفاق کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ سختی و کنجوسی بلکہ میانہ روی کرتے ہیں» (فرقان، ۶۷).

گناہ کی راہ میں خرچ، خودنمائی اور فخرفروشی کے لیے خرچ اور حد سے زیادہ خرچ کرنا وہ عمل ہے جن کو اسراف کہا جاتا ہے۔/

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha