حضرت امام محمد تقی علیہ السلام كی مختصر سوانح عمری

IQNA

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام كی مختصر سوانح عمری

10:07 - July 13, 2008
خبر کا کوڈ: 1668600
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام كی ولادت با سعادت كی مناسبت سے تمام مؤمنين كرام كو ہدیہ تبريك پيش كرتے ہیں۔


ولادت باسعادت

علماء كابيان ہے كہ امام المتقين حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بتاريخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ بمطابق ۸۱۱ ء يوم جمعہ بمقام مدينہ منورہ متولد ہوئے تھے (روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ،شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷) ۔

علامہ يگانہ جناب شيخ مفيدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونكہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام كے كوئی اولادآپ كی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی كرتے ہوئے كہتے تھے كہ شيعوں كے امام منقطع النسل ہیں یہ سن كرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرماياكہ اولادكاہونا خداكی عنايت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولادكياہے اورعنقريب ميرے یہاں مسندامامت كاوارث پيداہوگا چنانچہ آپ كی ولادت باسعادت ہوئی (ارشاد ص ۴۷۳) ۔

علامہ طبرسی لكھتے ہیں كہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرماياتھا كہ ميرے یہاں جوبچہ عنقريب پيداہوگا وہ عظيم بركتوں كاحامل ہوگا (اعلام الوری ص ۲۰۰) ۔

واقعہ ولادت كے متعلق لكھاہے كہ امام رضاعلیہ السلام كی بہن جناب حكيمہ خاتون فرماتی ہیں كہ ايك دن ميرے بھائی نے مجھے بلاكر كہاكہ آج تم ميرے گھرمیں قيام كرو،كيونكہ خيزران كے بطن سے آج رات كوخدامجھے ايك فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی كے ساتھ اس حكم كی تعميل كی جب رات آئی توہمسایہ كی اورچندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زيادہ گزرنے پريكايك وضع حمل كے آثارنمودارہوئے یہ حال ديكھ كر میں خيزران كوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن كرديا تھوڑی ديرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پيداہوئے میں نے ديكھاكہ وہ مختون اورناف بريدہ ہیں ولادت كے بعدمیں نے انہیں نہلانے كے لیے طشت میں بٹھايا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگيامگرپھربھی اس حجرہ میں روشنی بدستوررہی ،اوراتنی روشنی رہی كہ میں نے آسانی سے بچہ كونہلاديا،

تھوڑی ديرمیں ميرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشريف لے آئے میں نے نہايت عجلت كے ساتھ صاحبزادے كوكپڑے میں لپیٹ كر حضرت كی آغوش میں ديديا آپ نے سراورآنكھوں پربوسہ دیے كرپھرمجھے واپس كرديا، دودن تك امام محمدتقی علیہ السلام كی آنكھیں بندرہیں تيسرے دن جب آنكھیں كھلیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان كی طرف نظركی پھرداہنے بائیں ديكھ كركلمہ شہادتين زبان پرجاری كيا میں یہ ديكھ كر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے ساراماجرا اپنے بھائی سے بيان كيا، آپ نے فرماياتعجب نہ كرو، یہ ميرا فرزندحجت خدااوروصی رسول ہدی ہے اس سے جوعجائبات ظہورپذيرہوں ،ان میں تعجب كيا؟ محمدبن علی ناقل ہیں كہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے دونوں كندھوں كے درميان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح ديگرآئمہ علیہم السلام كے دونوں كندھوں كے درميان مہریں ہواكرتی تھیں(مناقب)۔

نام كنيت اورالقاب

آپ كااسم گرمی ،لوح محفوظ كے مطابق ان كے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ”محمد“ ركھا آپ كی كنيت ”ابوجعفر“ اورآپ كے القاب جواد،قانع، مرتضی تھے اورمشہورترين لقب تقی تھا (روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، شواہدالنبوت ص ۲۰۲ ، اعلام الوری ص ۱۹۹) ۔

بادشاہان وقت

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كی ولادت ۱۹۵ ھ میں ہوئی اس وقت بادشاہ وقت ،امين ابن ہارون رشيدعباسی تھا(وفيات الاعيان)۔

۱۹۸ ہجری میں مامون رشيدبادشاہ وقت ہوا(تاريخ خميس وابوالفداء) ۲۱۸ ہجری میں معتصم عباسی خليفہ وقت مقررہوا(ابوالفداء)۔

اسی معتصم نے ۲۲۰ ہجری میں آپ كوزہرسے شہيدكراديا(وسيلة النجات)۔

امام محمدتقی كی نشونمااورتربيت

یہ ايك حسرتناك واقعہ ہے كہ امام محمدتقی علیہ السلام كونہايت كمسنی ہی كے زمانہ میں مصائب اورپريشانيوں كامقابلہ كرنے كے لیے تيارہوجانا پڑاانہیں بہت ہی كم اطمينان اورسكون كے لمحات میں ماں باپ كی محبت اورشفقت وتربيت كے سایہ میں زندگی گزارنے كاموقع مل سكا آپ كوصرف پانچ برس تھا،جب حضرت امام رضاعلیہ السلام مدينہ سے خراسان كی طرف سفركرنے پرمجبورہوئے امام محمدتقی علیہ السلام اس وقت سے جواپنے باپ سے جداہوئے توپھرزندگی میں ملاقات كاموقع نہ ملا،امام محمدتقی علیہ السلام سے جداہونے كے تيسرے سال امام رضا علیہ السلام كی وفات ہوگئی، دنياسمجھتی ہوگی كہ امام محمدتقی كے لیے علمی اورعملی بلنديوں تك پہنچنے كاكوئی ذريعہ نہیں رہا، اس لیے اب امام جعفرصادق علیہ السلام كی علمی مسندشايدخالی نظرآئے مگر خالق خداكی حيرت كی ا نتہا نہ رہی جس اس كمسن بچے كو تھوڑے دن بعدمامون كے پہلومیں بیٹھ كربڑے بڑے علماء سے فقہ وحديث وتفسيراوركلام پرمناظرے كرتے اوران سب كوقائل ہوجاتے ديكھا ان كی حيرت اس وقت تك دور ہوناممكن نہ تھی جب تك وہ مادی اسباب كے آگے ايك مخصوص خداوندی مدرسہ تعليم وتربيت كے قائل نہ ہوتے جس كے بغيریہ معمہ نہ حل ہوا، اورنہ كبھی حل ہوسكتاہے (سوانح امام محمدتقی ص ۴) ۔

مقصدیہ ہے كہ امام كوعلم لدنی ہوتاہے یہ انبياء كی طرح پڑھے لكھے اورتمام صلاحيتوں سے بھرپورپيداہوتے ہیں انہوں نے سروركائنات كی طرح كبھی كسی كے سامنے زانوئے تلمذ نہیں تہ كيا اورنہ كرسكتے تھے، یہ اس كے بھی محتاج نہیں ہوتے تھے كہ آباؤاجدادانہیں تعليم دیں، یہ اوربات ہے كہ ازديادعلم وشرف كے لیے ايساكردياجائے، ياعلوم مخصوصہ كی تعليم ديدی جائے۔

والدماجدكے سایہ عاطفيت سے محرومی

يو ں توعمومی طورپركسی كے باپ كے مرنے سے سایہ عاطفت سے محرومی ہواكرتی ہے ليكن حضرت امام محمدتقی علیہ السلام اپنے والدماجدكے سایہ عاطفت سے ان كی زندگی ہی میں محروم ہوگئے تھے،ابھی آپ كی عمر ۶ سال كی بھی نہ ہونے پائی تھی كہ آپ اپنے پدربزرگواركی شفقت وعطوفت سے محروم كرديئے گئے اورمامون رشيدعباسی نے آپ كے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام كواپنی سياسی غرض كے ماتحت مدينہ سے خراسان طلب كرليا۔

اورساتھ ہی یہ شق بھی لگادی كہ آپ كے بال بچے مدينہ ہی میں رہیں گے جس كانتيجہ یہ ہواكہ آپ سب كوہميشہ كے لیے خيربادكہہ كرخراسان تشريف لے گئے اوروہیں عالم غربت میں سب سے جدامامون رشيدكے ہاتھوں ہی شہيدہوكردنياسے رخصت ہوگئے۔

آپ كے مدينہ سے تشريف لے جانے كااثرخاندان پریہ پڑا كہ سب كے دل كاسكون جاتارہااورسب كے سب اپنے كوزندہ درگورسمجھتے رہے بالاخروہ نوبت پہنچی ، كہ آپ كی ہمشيرہ جناب فاطمہ جوبعدمیں ”معصومہ قم“ كے نام سے ملقب ہوئیں ،انتہائی بے چينی كی حالت میں گھر سے نكل كرخراسان كی طرف روانہ ہوئیں ،ان كے دل میں جذبات یہ تھے كہ كسی طرح اپنے بھائی علی رضاعلیہ السلام سے ملیں، ليكن ايك روايت كی بناء پرآپ مدينہ سے روانہ ہوكرجب مقام ساوہ میں پہنچیں توعليل ہوگئیں، آپ نے پوچھاكہ یہاں سے قم كتنی دورہے؟ لوگوں نے كہاكہ یہاں سے قم كی مسافت دس فرسخ ہے، آپ نے خواہش كی كہ كسی صورت سے وہاں پہنچادی جائیں، چنانچہ آپ آل سعدكے رئيس موسی بن خزرج كی كوششوں سے وہاں پہنچیں اوراسی كے مكان میں ۱۷/ يوم بيمار رہ كراپنے بھائی كوروتی پیٹتی دنياسے رخصت ہوگئیں اورمقام ”بابلان“ قم میں دفن ہوئیں یہ واقعہ ۲۰۱ ہجری كاہے (انوارالحسينیہ جلد ۴ ص ۵۳) ۔

اورايك روايت كی بناپرآپ اس وقت خراسان پہنچیں جب بھائی شہيدہوچكاتھا اورلوگ دفن كے لیے كالے كالے علموں كے سایہ میں لیے جارہے تھے آپ قم آكروفات پاگئیں۔

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے لیے حضرت امام رضاعلیہ السلام كی جدائی ہی كياكم تھی كہ اس پرمستزاداپنی پھوپھی كے سایہ سے بھی محروم ہوگئے ہمارے امام كے لیے كمسنی میں یہ دونوں صدمے انتہائی تكليف دہ اوررنج رساں تھے ليكن مشيت ايزدی میں چارہ نہیں آخرآپ كوتمام مراحل كامقابلہ كرناپڑا اورآپ صبرو ضبط كے ساتھ ہرمصيبت كوجھيلتے رہے۔

مامون رشيدعباسی اورحضرت امام محمدتقی علیہ السلام كاپہلاسفرعراق

عباسی خليفہ مامون رشيدحضرت امام رضاعلیہ السلام كی شہادت سے فراغت كے بعديااس لیے كہ اس پرامام رضاكے قتل كا الزام ثابت نہ ہوسكے يااس لیے كہ وہ امام رضاكی وليعہدی كے موقع پراپنی لڑكی ام حبيب كی شادی كااعلان بھی كرچكاتھا كہ ولی عہدكے فرزندامام محمدتقی كے ساتھ كرے گا اسے نبھانے كے لیے يااس لیے كہ ابھی اس كی سياسی ضرورت اسے امام محمدتقی كی طرف توجہ كی دعوت دے رہی تھی ،بہرحال جوبات بھی ہو،اس نے یہ فيصلہ كرلياكہ امام محمدتقی علیہ السلام كومدينہ سے دعوت نامہ ارسال كيا اورانہیں اسی طرح مجبوركركے بلاياجس طرح امام رضاعلیہ السلام كوبلواياتھا ”حكم حاكم مرگ مفاجات“ بالاخرامام محمدتقی علیہ السلام كوبغدادآناپڑا۔

بازاراورمچلی كاواقعہ

امام محمدتقی علیہ السلام جن كی عمراس وقت تقريبا ۹ سال كی تھی ايك دن بغدادكے كسی گزرگاہ میں كھڑے ہوئے تھے اورچند لڑكے وہاں كھيل رہے تھے كہ ناگہاں خليفہ مامون كی سواری دكھائی دی، سب لڑكے ڈركربھاگ گئے مگرحضرت امام محمدتقی علیہ السلام اپنی جگہ پركھڑے رہے جب مامون كی سواری وہاں پہنچی تواس نے حضرت امام محمدتقی سے مخاطب ہوكركہاكہ صاحبزادے جب سب لڑكے بھاگ گئے تھے توتم كيوں نہیں بھاگے انہوں نے بے ساختہ جواب ديا كہ ميرے كھڑے رہنے سے راستہ تنگ نہ تھا جوہٹ جانے سے وسيع ہوجاتااورمیں نے كوئی جرم نہیں كياتھا كہ ڈرتا نيزميراحسن ظن ہے كہ تم بے گناہ كوضررنہیں پہنچاتے مامون كوحضرت امام محمدتقی كااندازبيان بہت پسندآيا۔

اس كے بعدمامون وہاں سے آگے بڑھا،اس كے ساتھ شكاری بازبھی تھے جب آبادی سے باہرنكل گيا تواس نے ايك بازكوايك چكورپرچھوڑابازنظروں سے اوجھل ہوگيا اورجب واپس آياتو اس كی چونچ میں ايك چھوٹی سی مچھلی تھی جس كوديكھ كرمامون بہت متعجب ہواتھوڑی ديرمیں جب وہ اسی طرف لوٹاتواس نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كودوسرے لڑكوں كے ساتھ وہیں ديكھا جہاں وہ پہلے تھے لڑكے مامون كی سواری ديكھ كرپھربھاگے ليكن حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بدستورسابق وہیں كھڑے رہے جب مامون ان كے قريب آياتومٹھی بندكركے كہنے لگاكہ صاحبزادے بتاؤ،ميرے ہاتھ میں كياہے انہوں نے فرماياكہ اللہ تعالی نے اپنے دريائے قدرت مين چھوٹی مچھلياں پيداكی ہیں اورسلاطين اپنے بازسے ان مچھليوں كاشكاركركے اہلبيت رسالت كے علم كاامتحان ليتے ہیں یہ سن كرمامون بولا! بے شك تم علی بن موسی رضاكے فرزندہو، پھران كواپنے ساتھ ليتاگيا (صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ،مطالب السول ص ۲۹۰ ،شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ،نورالابصار ص ۱۴۵ ،ارحج المطالب ص ۴۵۹) ۔

یہ واقعہ ہماری بھی بعض كتابوں میں ہے اس واقعہ كے سلسلہ میں میں نے جن كتابوں كاحوالہ دياہے ان میں”ان اللہ خلق فی بحرقدرتہ سمكا صغارا“ مندرج ہے البتہ بعض كتب میں ”بين السماء والہواء“ لكھاہے، اول الذكركے متعلق توتاويل كاسوال ہی پيدانہیں ہوتاكيونكہ ہردرياخداہ كی قدرت سے جاری ہے اورمذكورہ واقعہ میں امكان قوی ہے كہ بازاسی زمين پرجودرياہیں انھیں كے كسی ايك سے شكاركركے لاياہوگا البتہ آخرالذكر كے متعلق كہاجاسكتاہے:

۱ ۔ جہاں تك مجھے علم ہے ہرگہرے سے گہرے درياكی انتہاكسی سطح ارضی پرہے۔

۲ ۔ بقول علامہ مجلسی بعض درياايسے ہیں جن سے ابرچھوٹی مچھليوں كواڑاكراوپرلے جاتے ہیں ۔

۳ ۔ ۱۹۲۳ ء كے اخبارمیں یہ شائع ہوچكاہے كہ امريكہ كی نہرپانامہ میں جوسڈوبول بندرگاہ كے قريب ہے مچھليوں كی بارش ہوئی ہے۔

۴ ۔ آسمان اورہواكے درميان بحرمتلاطم سے مرادفضاكی وہ كيفيات ہوں جودريا كی طرح پيداہوتے ہیں۔

۵ ۔ كہاجاتاہے كہ علم حيوان میں یہ ثابت ہے كہ مچھلی درياسے ايك سوپچاس گزتك بعض حالات میں بلندہوجاتی ہے بہرحال انہیں گہرائيوں كی روشنی میں فرزندرسول نے مامون سے فرماياكہ بادشاہ بحرقدرت خداوندی سے شكاركركے لاياہے اورآل محمدكاامتحان ليتاہے۔

ام الفضل كی رخصتی ، امام محمدتقی علی السلام كی مدينہ كوواپسی

اور

حضرت كے اخلاق واوصاف عادات وخصائل

اس شادی كاپس منظرجوبھی ہو ،ليكن مامون نے نہايت اچھوتے اندازسے اپنی لخت جگرام الفضل كوحضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے حبالہ نكاح میں ديديا تقريبا ايك سال تك امام علیہ السلام بغدادمیں مقيم رہے، مامون نے دوران قيام بغدادمیں آپ كی عزت وتوقيرمیں كوئی كمی نہیں كی ”الی ان توجہ بزوجتہ ام الفضل الی المدينة المشرفة“۔ یہاں تك آپ اپنی زوجہ ام الفضل سميت مدينہ مشرفہ تشريف لے آئے (نورالابصارص ۱۴۶) ۔

مامون نے بہت ہی انتظام واہتمام كے ساتھ ام الفضل كوحضرت كے ساتھ رخصت كرديا۔

علامہ شيخ مفيد، علامہ طبرسی، علامہ شبلنجی، علامہ جامی علیہم ا لرحمة تحريرفرماتے ہیں كہ امام علیہ السلام اپنی اہلیہ كولئے ہوئے مدينہ تشريف لے جارہے تھے، آپ كے ہمراہ بہت سے حضرات بھی تھے چلتے چلتے شام كے وقت آپ واردكوفہ ہوئے وہاں پہنچ كرآپ نے جناب مسيب كے مكان پرقيام فرمايااورنمازمغرب پرھنے كے لیے وہاں كی ايك نہايت ہی قديم مسجدمیں تشريف لے گئے آپ نے وضوكے لیے پانی طلب فرمايا، پانی آنے پرايك ايسے درخت كے تھالے میں وضوكرنے لگے جوبالكل خشك تھا اورمدتوں سے سرسبزی اورشادابی سے محروم تھا امام علیہ السلام نے اس جگہ وضوكيا، پھرآپ نمازمغرب پڑھ كروہاں سے واپس ہوئے اوراپنے پروگرام كے مطابق وہاں سے روانہ ہوگئے۔

امام علیہ السلام توتشريف لے گئے ليكن ايك عظيم نشانی چھوڑگئے اوروہ یہ تھی كہ جس خشك درخت كے تھالے میں آپ نے وضوفرماياتھا وہ سرسبزوشاداب ہوگيا، اوررات ہی بھرمیں وہ تيارپھلوں سے لدگيا لوگوں نے اسے ديكھ كربے انتہا تعجب كيا(ارشادص ۴۷۹ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، نورالابصارص ۱۴۷ ، شواہداالنبوت ص ۲۰۵) ۔

كوفہ سے روانہ ہوكرطے مراحل وقطع منازل كرتے ہوئے آپ مدينہ منورہ پہنچے وہاں پہنچ كرآپ اپنے فرائض منصبی كی ادائيگی میں منہمك ومشغول ہوگئے پندونصائح،تبليغ وہدايت كے علاوہ آپ نے اخلاق كاعملی درس شروع كردياخاندانی طرہ امتيازكے بموجب ہرايك سے جھك كرملنا ضرورت مندوں كی حاجت روائی كرنا مساوات اورسادگی كوہرحال میں پيش نظرركھنا، غرباء كی پوشيدہ طورپرخبرلينا، دوستوں كے علاوہ دشمنوں تك سے اچھاسلوك كرتے رہنا مہمانوں كی خاطرداری میں انہماك اورعلمی ومذہبی پياسوں كیے لیے فيض كے چشموں كوجاری ركھنا ،آپ كی سيرت زندگی كانماياں پہلوتھا اہل دنياجوآپ كی بلندی نفس كاپورااندازہ رنہ ركھتے تھے انہیں یہ تصورضروری ہوتاتھا كہ ايك كمسن بچے كاعظيم الشان مسلمان سلطنت كے شہنشاہ كادامادہوجانا يقينا اس كے چال ڈھال ،طورطريقے كوبدل دے گا اوراس كی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔

حقيقت میں یہ ايك بہت بڑامقصدہوسكتاہے جومامون كی كوتاہ نگاہ كے سامنے بھی تھا بنی امیہ يابنی عباس كے بادشاہوں كوآل رسول كی ذات سے اتنااختلاف نہ تھا، جتناان كی صفات سے تھا وہ ہميشہ اس كے درپئے رہتے تھے كہ بلندی اخلاق اورمعراج انسانيت كا وہ مركزجومدينہ منورہ میں قائم ہے اورجوسلطنت كے مادی اقتداركے مقابلہ میں ايك مثالی روحانيت كامركزبناہوا ہے، یہ كسی طرح ٹوٹ جائے اسی كے لیے گھبراگھبراكروہ مختلف تدبيریں كرتے تھے ۔

امام حسين علیہ السلام سے بيعت طلب كرنا،اسی كی ايك شكل تھی اورپھرامام رضاكوولی كوعہدبنانا اسی كادوسراطريقہ تھا فقط ظاہری شكل وصورت میں ايك كااندازمعاندانہ اوردوسرے كاطريقہ ارادت مندی كے روپ میں تھا، مگراصل حقيقت دونوں صورتوں كی ايك تھی ،جس طرح امام حسين نے بيعت نہ كی، تووہ شہيدكرڈالے گئے، اسی طرح امام رضاعلیہ السلام ولی عہدہونے كے باوجودحكومت كے مادی مقاصدكے ساتھ ساتھ نہ چلے توآپ كوزہركے ذريعہ سے ہميشہ كے لیے خاموش كردياگيا۔

اب مامون كے نقطہ نظرسے یہ موقع انتہائی قيمتی تھا كہ امام رضاكا جانشين ايك آٹھ، نو،برس كابچہ ہے، جوتين چاربرس پہلے ہی باپ سے چھڑاليا جاچكاتھا حكومت وقت كی سياسی سوجھ بوجھ كہہ رہی تھی كہ اس بچہ كواپنے طريقے پرلانانہايت آسان ہے اوراس كے بعدوہ مركزجوحكومت وقت كے خلاف ساكن اورخاموش مگرانتہائی خطرناك قائم ہے ہميشہ كے لیے ختم ہوجائے گا۔

مامون رشيدعباسی، امام رضاعلیہ السلام كے ولی عہدی كی مہم میں اپنی ناكامی كومايوسی كاسبب نہیں تصوركرتاتھا اس لےے كہ امام رضاكی زندگی ايك اصول پرقائم رہ چكی تھی، اس میں تبديلی نہیں ہوئی تویہ ضروری نہیں كہ امام محمدتقی جوآٹھ ،نوبرس كے سن سے قصرحكومت میں نشوونماپاكربڑھیں وہ بھی بالكل اپنے بزرگوں كے اصول زندگی پربرقرارہیں۔

سوائے ان لوگوں كے جوان مخصوص افرادكے خدادادكمالات كوجانتے تھے اس وقت كاہرشخص يقينا مامون ہی كاہم خيال ہوگا، مگرحكومت كوحيرت ہوگئی جب یہ ديكھاكہ وہ نوبرس كابچہ جسے شہنشاہ اسلام كادامادبناياگياہے اس عمرمیں اپنے خاندانی ركھ ركھاؤاوراصول كااتناپابندہے كہ وہ شادی كے بعدمحل شاہی میں قيام سے انكاركرديتاہے ،اوراس وقت بھی كہ جب بغدادمیں قيام رہتاہے توايك عليحدہ مكان كرایہ پرلے كر اس میں قيام فرماتے ہیں اس سے بھی امام كی مستحكم قوت ارادی كااندازہ كياجاسكتاہے عمومامالی اعتبارسے لڑكی والے جوكچھ بھی بڑادرجہ ركھتے ہوتے ہیں تووہ یہ پسندكرتے ہیں كہ جہاں وہ رہیں وہیں دامادبھی رہے اس گھرمیں نہ سہی تو كم ازكم اسی شہرمیں اس كاقيام رہے، مگرامام محمدتقی نے شادی كے ايك سال بعدہی مامون كوحجازواپس جانے كی اجازت پرمجبوركرديا يقينا یہ امرايك چاہنے والے باپ اورمامون ايسے باقتداركے لیے انتہائی ناگوارتھا مگراسے لڑكی كی جدائی گواراكرنا پڑی اورامام مع ام الفضل كے مدينہ تشريف لے گئے۔

مدينہ تشريف لانے كے بعد ڈيوڑھی كاوہی عالم رہا جواس كے پہلے تھا ،نہ پہرہ دارنہ كوئی خاص روك ٹوك، نہ تزك واحتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتيوں كے ساتھ برتاؤ میں كوئی تفريق زيادہ ترنشست مسجدنبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت كے وعظ ونصحيت سے فائدہ اٹھاتے تھے راويان حديث، اخبار واحاديث دريافت كرتے تھے طالب علم مسائل پوچھتے تھے ،صاف ظاہرتھا كہ جعفرصادق ہی كاجانشين اورامام رضاكافرزندہے جواسی مسندعلم پربیٹھاہوا ہدايت كاكام انجام دے رہاہے۔

امورخانہ داری اورازدواجی زندگی میں آپ كے بزرگوں نے اپنی بيويوں كوجن حدودمیں ركھاہواتھا انہیں حدودمیں آپ نے ام الفضل كوبھی ركھا، آپ نے اس كی مطلق پرواہ نہ كی كہ آپ كی بيوی ايك شہنشاہ وقت كی بیٹی ہے چنانچہ ام الفضل كے ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عمارياسركی نسل سے ايك محترم خاتون كےساتھ عقدبھی فرمايااورقدرت كونسل امامت اسی خاتون سے باقی ركھنامنظورتھی ،یہی امام علی نقی كی ماں ہوئیں ام الفضل نے اس كی شكايت اپنے باپ كے پاس لكھ كربھيجی، مامون كے دل كے لیے بھی یہ كچھ كم تكليف دہ امرنہ تھا، مگراسے اب اپنے كئے كونباہناتھا اس نے ام الفضل كوجواب میں لكھا كہ میں نے تمہارا عقدابوجعفرسے ساتھ اس لیے نہیں كياكہ ان پركسی حلال خداكوحرام كردوں خبردار! مجھ سے اب اس قسم كی شكايت نہ كرنا۔

یہ جواب دے كرحقيقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے ہمارے سامنے اس كی نظریں موجودہیں كہ اگرمذہبی حيثيت سے كوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس كی زندگی میں كسی دوسری بيوی سے نكاح نہیں كياگيا،جيسے پيغمبراسلا م كے لیے جناب خديجة اورحضرت علی المرتضی كےلیے جناب فاطمة الزہراء ، مگرشہنشاہ دنيا كی بیٹی كویہ امتيازديناصرف اس لیے كہ وہ ايك بادشاہ كی بیٹی ہے اسلام كی اس روح كے خلاف تھا جس كے آل محمدمحافظ تھے اس لیے امام محمدتقی علیہ السلام نے اس كے خلاف طرزعمل اختياركرنااپنافريضہ سمجھا (سوانح محمدتقی جلد ۲ ص ۱۱) ۔

امام محمدتقی علیہ السلام اورطی الارض

امام محمدتقی علیہ السلام اگرچہ مدينہ میں قيام فرماتھے ليكن فرائض كی وسعت نے آپ كومدينہ ہی كے لے محدودنہیں ركھاتھا آپ مدينہ میں رہ كراطراف عالم كے عقيدت مندوں كی خبرگيری فرماياكرتے تھے یہ ضروری نہیں كہ جس كے ساتھ كرم گستری كی جائے وہ آپ كے كوائف وحالات سے بھی آگاہ ہوعقيدہ كاتعلق دل كی گہرائی سے ہے كہ زمين وآسمان ہی نہیں ساری كائنات ان كے تابع ہوتی ہے انہیں اس كی ضرورت نہیں پڑتی كہ وہ كسی سفرمیں طے مراحل كے لیے زمين اپنے قدموں سے نانپاكریں، ا ن كے لیے یہی بس ہے كہ جب اورجہاں چاہیں چشم زدن میں پہنچ جائیں اوریہ عقلا محال بھی نہیں ہے ايسے خاصان خدا كے اس قسم كے واقعات قران مجيدمیں بھی ملتے ہیں۔

آصف بن برخياوصی جناب سليمان علیہ السلام كے لیے علماء نے اس قسم كے واقعات كاحوالہ دياہے ان میں سے ايك واقعہ یہ ہے كہ آپ مدينہ منورہ سے روانہ ہوكرشام پہنچے، وہاں ايك شخص كواس مقام پرعبادت میں مصروف ومشغول پاياجس جگہ امام حسين كاسرمبارك لٹكاياگياتھا آپ نے اس سے كہاكہ ميرے ہمراہ چلووہ روانہ ہوا، ابھی چندقدم نہ چلاتھا ،كہ كوفہ كی مسجدمیں جاپہنچا وہاں نمازاداكرنے كے بعد جوروانگی ہوئی، توصرف چندمنٹوں میں مدينہ منورہ جاپہنچے اورزيارت ونمازسے فراغت كی گئی، پھروہاں سے چل كر لمحوں میں مكہ معظمہ رسيدگی ہوئی ،طواف وديگرعبادت سے فراغت كے بعدآپ نے چشم زدن میں اسے شام كی مسجدمیں پہنچاديا۔

اورخود نظروں سے اوجل ہوكرمدينہ منورہ جاپہنچے پھرجب دوسراسال آيا توآپ بدستورشام كی مسجدمیں تشريف لے گئے اوراس عابدسے كہاكہ ميرے ہمراہ چلو،چنانچہ وہ چل پڑاآپ نے چندلمحوں میں اسے سال گزشتہ كی طرح تمام مقدس مقامات كی زيارت كرادی پہلے ہی سال كے واقعہ سے وہ شخص بے انتہامتاثرتھا ہی، كہ دوسرے سال بھی ايساہی واقعہ ہوگيااب كی مرتبہ اس نے مسجدشام واپس پہنچتے ہی ان كادامن تھام ليا اورقسم دے كرپوچھا كہ فرمائیے آپ اس عظيم كرامت كے مالك كون ہیں آپ نے ارشادفرمايا كہ میں محمدبن علی (امام محمدتقی ہوں) اس نے بڑی عقيدت اورتعظيم وتكريم كے مراسم دااكئے۔

آپ كے واپس تشريف لے جانے كے بعد یہ خبربجلی كی طرح تمام پھيل گئی جب والی شام محمدبن عبدالملك كواس كی اطلاغ ملی اوریہ بھی پتہ چلاكہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہامتاثرہوگئے ہیں تواس نے اس عابدپر”مدعی نبوت“ ہونے كاالزام لگاكراسے قيدكرديا اورپھرشام سے منتقل كراكے عراق بھجواديا اس نے والی كوقيدخانہ سے ايك خط بھيجا جس میں لكھاكہ میں بے خطاہوں، مجھے رہاكياجائے، تواس نے خط كی پشت پرلكھاكہ جوشخص تجھے شام سے كوفہ اوركوفہ سے مدينہ اوروہاں سے مكہ اورپھروہاں سے شام پہنچاسكتاہے اپنی رہائی میں اسی كی طرف رجوع كر۔

اس جواب كے دوسرے دن یہ شخص مكمل سختی كے باوجود، سخت ترين پہرہ كے ہوتے ہوئے قيدخانہ سے غائب ہوگيا، علی بن خالدراوی كابيان ہے كہ جب میں قيدخانہ كے پھاٹك پرپہنچا توديكھاكہ تمام ذمہ داران حيران وپريشان ہیں، اوركچھ پتہ نہیں چلتا كہ عابد شامی زمين میں سماگيا ياآسمان پراٹھالياگيا، علامہ مفيد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں كہ اس واقعہ سے علی بن خالد جودوسرے مذہب كاپيروتھا، امامیہ مسلك كامعتقدہوگيا (شواہدالنبوت ص ۲۰۵ ،نورالابصار ص ۱۴۶ ، اعلام الوری ص ۷۳۱ ، ارشادمفيد ص ۴۸۱) ۔

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے بعض كرامات

صاحب تفسيرعلامہ حسين واعظ كاشفی كابيان ہے كہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے كرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض كاتذكرہ مختلف كتب سے كرتاہوں ۔

علامہ عبدالرحمن جامی تحريركرتے ہیں كہ :

۱ ۔ مامون رشيدكے انتقال كے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام نے ارشادفرماياكہ اب تيس ماہ بعدميرا بھی انتقال ہوگا، چنانچہ ايساہی ہوا۔

۲ ۔ ايك شخص نے آپ كی خدمت میں حاضرہوكرعرض كياكہ ايك مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست كی ہے كہ اپناكوئی جامہ كہنہ ديجیے تاكہ میں اسے اپنے كفن میں ركھوں آپ نے فرماياكہ اب جامہ كہنہ كی ضرورت نہیں ہے روای كابيان ہے كہ میں وہ جواب لے كرجب واپس ہواتومعلوم ہواكہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہوگئے ہیں كہ وہ انتقال كرچكی ہے۔

۳ ۔ ايك شخص (امیہ بن علی) كہتاہے كہ میں اورحمادبن عيسی ايك سفرمیں جاتے ہوئے حضرت كی خدمت میں حاضرہوئے تاكہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشادفرماياكہ تم آج اپناسفرملتوی كردو، چنانچہ میں حسب الحكم ٹہرگيا، ليكن ميراساتھی حمادبن عيسی نے كہاكہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نكال ركھاہے اب اچھانہیں معلوم ہوتا كہ سفرملتوی كردوں، یہ كہہ كروہ روانہ ہوگيا اورچلتے چلتے رات كو ايك وادی میں جاپہنچا اوروہیں قيام كيا، رات كے كسی حصہ میں عظيم الشان سيلاب آگيا،اوروہ تمام لوگوں كے ساتھ حمادكوبھی بہاكرلے گيا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔

۴ ۔ علامہ اربلی لكھتے ہیں كہ معمربن خلادكابيان ہے كہ ايك دن مدينہ منورہ میں جب كہ آپ بہت كمسن تھے مجھ سے فرماياكہ چلوميرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہوگيا حضرت نے مدينہ سے باہرنكل كرے ايك وادی میں جاكرمجھ سے فرماياكہ تم ٹھرجاؤ میں ابھی آتاہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہوگئے اورتھوڑی ديركے بعد واپس ہوئے واپسی پرآپ بے انتہاء ملول اوررنجيدہ تھے، میں نے پوچھا : فرزندرسول ! آپ كے چہرہ مبارك سے آثارحزن وملال كيوں ہويداہیں ارشادفرماياكہ اسی وقت بغدادسے واپس آرہاہوں وہاں ميرے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام زہرسے شہيدكردئیے گئے ہیں میں ان پرنمازوغيرہ اداكرنے گياتھا۔

۵ ۔ قاسم بن عبادالرحمن كابيان ہے كہ میں بغدادمیں تھا میں نے ديكھاكہ كسی شخص كے پاس تمام لوگ برابرآتے جاتے ہیں میں نے دريافت كيا كہ جس كے پاس آنے جانے كاتانتابندھاہواہے یہ كون ہیں؟ لوگوں نے كہاكہ ابوجعفرمحمدبن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں كہ آپ ناقہ پرسواراس طرف سے گذرے ،قاسم كہتاہے كہ انہیں ديكھ كرمیں نے دل میں كہا كہ وہ لوگ بڑے بيوقوف ہیں جوآپ كی امامت كے قائل ہیں اورآپ كی عزت وتوقيركرتے ہیں، یہ توبچے ہیں اورميرے دل میں ان كی كوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہاتھا كہ آپنے قريب آكرفرماياكہ ایے قاسم بن عبدالرحمن جوشخص ہماری اطاعت سے گريزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا آپ كے اس فرمانے پرمیں نے خيال كياكہ یہ جادوگرہیں كہ انہوں نے ميرے دل كے ارادے كومعلوم كرلياہے جيسے ہی یہ خيال ميرے دل میں آياآپ نے فرماياكہ تمہارے خيال بالكل غلط ہیں تم اپنے عقيدے كی اصلاح كرو یہ سن كرمیں نے آپ كی امامت كااقراركيا اورمجھے مانناپڑاكہ آپ حجت اللہ ہیں۔

۶ ۔ قاسم بن الحسن كابيان ہے كہ میں ايك سفرمیں تھا ، مكہ اورمدينہ كے درميان ايك مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال كيا،میں نے اسے روٹی كاايك ٹكڑا ديديا ابھی تھوڑی ديرگذری تھی كہ ايك زبردست آندھی آئی اوروہ ميری پگڑی اڑاكرلے گئی میں نے بڑی تلاش كی ليكن وہ دستياب نہ ہوسكی جب میں مدينہ پہنچا اورحضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے ملنے گياتوآپ نے فرماياكہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوااڑالے گئی میں نے عرض كی جی حضور!آپ نے اپنے ايك غلام كوحكم دياكہ ان كی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضركی میں نے بڑے تعجب سے دريافت كياكہ مولا! یہ پگڑی یہاں كيسے پہنچی ہے آپ نے فرماياكہ تم نے جورہ خدامیں روٹی كاٹكڑادياتھا، اسے خدانے قبول فرمالياہے، ایے قاسم خداوندعالم یہ نہیں چاہتا جواس كی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔

۷ ۔ ام الفضل نے حضرت امام محمدتقی كی شكايت اپنے والدمامون رشيد عباسی كولكھ كربھيجی كہ ابوجعفرميرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی كررہے ہیں اس نے جواب دياكہ میں نے تيری شادی ان كے ساتھ اس نہیں كی حلال خداكوحرام كردوں انہیںقانون خداوندی اجازت ديتاہے كہ وہ دوسری شادی كریں، اس میں تيراكيادخل ہے ديكھ آئندہ سے اس قسم كی كوئی شكايت نہ كرنا اورسن تيرافريضہ ہے كہ تواپنے شوہرابوجعفركوجس طرح ہوراضی ركھ اس تمام خط وكتابت كی اطلاع حضرت كوہوگئی (كشف الغمہ ص ۱۲۰) ۔

علامہ شيخ حسين بن عبدالوہاب تحريرفرماتے ہیں كہ ايك دن ام الفضل نے حضرت كی ايك بيوی كوجوعمارياسر كی نسل سے تھی ديكھاتومامون رشيدكو كچھ اس طرح سے كہاكہ وہ حضرت كے قتل پرآمادہ ہوگيا، مگرقتل نہ كرسكا(عيون المعجزات ص ۱۵۴ طبع ملتان)۔

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے ہدايات وارشادات

یہ ايك مسلہ حقيقت ہے كہ بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بيت كی تعليم حاصل كی آپ كے لیے مختصرحكيمانہ مقولوں كابھی ايك ذخيرہ ہے، جيسے آپ كے جدبزرگوارحضرت اميرالمومنين علی علیہ السلام كے كثرت سے پائے جاتے ہیں جناب اميرعلیہ السلام كے بعدامام محمدتقی علیہ السلام كے مقولوں كوايك خاص درجہ حاصل ہے بعض علماء نے آپ كے مقولوں كوتعدادكئی ہزاربتائی ہے علامہ شبلنجی بحوالہ فصول المہمہ تحريرفرماتے ہیں كہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كااراشادہے كہ :

۱ ۔ خداوندعالم جسے جونعمت ديتاہے بہ ارادہ دوام ديتاہے ، ليكن اس سے وہ اس وقت زائل ہوجاتی ہے جب وہ لوگوں يعنی مستحقين كودينابندكرديتاہے ۔

۲ ۔ ہرنعمت خداوندی میں مخلوق كاحصہ ہے جب كسی كوعظيم نعمتیں ديتاہے تولوگوں كی حاجتیں بھی كثيرہوجاتی ہیں اس موقع پراگرصاحب نعمت (مالدار) عہدہ برآہوسكاتوخيرورنہ نعمت كازوال لازمی ہے۔

۳ ۔ جوكسی كوبڑاسمجھتاہے اس سے ڈرتاہے۔

۴ ۔ جس كی خواہشات زيادہ ہوں گی اس كاجسم موٹاہوگا۔ ۵ ۔ صحيفہ حيات مسلم كاسرنامہ ”حسن خلق“ ہے۔

۶ ۔ جوخداكے بھروسے پرلوگوں سے بے نيازہوجائے گا، لوگ اس كے محتاج ہوں گے۔ ۷ ۔ جوخداسے ڈرے گاتولوگ اسے دوست ركھیں گے۔

۸ ۔ انسان كی تمام خوبيوں كامركززبان ہے۔ ۹ ۔ انسان كے كمالات كادارومدارعقل كے كمال پرہے ۔

۱۰ ۔ انسان كے لیے فقركی زينت ”عفت “ ہے خدائی امتحان كی زينت شكرہے حسب كی زينت تواضع اورفرتنی ہے كلام كی زينت ”فصاحت“ ہے روايات كی زينت ”حافظہ“ ہے علم كی زينت انكساری ہے ورع وتقوی كی زينت ”حسن ادب “ ہے قناعت كی زينت ”خندہ پيشانی“ ہے ورع وپرہيزگاری كی زينت تمام مہملات سے كنارہ كشی ہے۔

۱۱ ۔ ظالم اورظالم كامددگاراورظالم كے فعل كے سراہانے والے ايك ہی زمرمیں ہیں يعنی سب كادرجہ برابرہے۔

۱۲ ۔ جوزندہ رہناچاہتاہے اسے چاہئے كہ برداشت كرنے كے لیے اپنے دل كوصبرآزمابنالے۔

۱۳ ۔ خداكی رضاحاصل كرنے كے لیے تين چيزیں ہونی چاہئیں اول استغفار دوم نرمی اورفرتنی سوم كثرت صدقہ۔

۱۴ ۔ جوجلدبازی سے پرہيزكرے گا لوگوں سے مشورہ لے گا ،اللہ پربھروسہ كرے گاوہ كبھی شرمندہ نہیں ہوگا۔ ۱۵ ۔ اگرجاہل زبان بندركھے تواختلافات نہ ہوں گے ۱۶ ۔ تين باتوں سے دل موہ لیے جاتے ہیں ۱ ۔ معاشرہ انصاف ۲ ۔ مصيبت میں ہمدردی ۳ ۔ پريشان خاطری میں تسلی ۔

۱۷ ۔ جوكسی بری بات كواچھی نگاہ سے ديكھے گا، وہ اس میں شريك سمجھاجائے گا۔ ۱۸ ۔ كفران نعمت كرنے والاخداكی ناراضگی كودعوت دياہے۔

۱۹ ۔ جوتمہارے كسی عطیہ پرشكریہ اداكرے، گويااس نے تمہیں اس سے زيادہ ديديا۔

۲۰ ۔ جواپنے بھائی كوپوشيدہ طورپرنصيحت كرے وہ اس كاحسن ہے، اورجوعلانیہ نصيحت كرے،گويااس نے اس كے ساتھ برائی كی۔

۲۱ ۔ عقلمندی اورحماقت جوانی كے قريب تك ايك دوسرے پرانسان پرغلبہ كرتے رہتے ہیں اورجب ۱۸ سال پورے ہوجاتے ہیں تواستقلال پيداہوجاتاہے اورراہ معين ہوجاتی ہے ۔

۲۲ ۔ جب كسی بندہ پرنعمت كانزول ہواوروہ اس نعمت سے متاثرہوكریہ سمجھے كہ یہ خداكی عنايت ومہربانی ہے توخداوندعالم كاشكركرنے سے پہلے اس كانام شاكرين میں لكھ ليتاہے اورجب كوئی گناہ كرنے كے ساتھ یہ محسوس كرے كہ میں خداكے ہاتھ میں ہوں، وہ جب اورجس طرح چاہے عذاب كرسكتاہے تو خداوندعالم اسے استغفارسے قبل بخش ديتاہے۔

۲۳ ۔ شريف وہ ہے جوعالم ہے اورعقلمندوہ ہے جومتقی ہے۔ ۲۴ ۔ جلدبازی كركے كسی امركوشہرت نہ دو، جب تك تكميل نہ ہوجائے ۔

۲۵ ۔ اپنی خواہشات كواتنانہ بڑھاؤكہ دل تنگ ہوجائے۔ ۲۶ ۔ اپنے ضعيفوں پررحم كرو اوران پرترحم كے ذريعہ سے اپنے لیے خداسے رحم كی درخواست كرو۔

۲۷ ۔ عام موت سے بری موت وہ ہے جوگناہ كے ذريعہ سے ہو اورعام زندگی سے خيروبركت كے ساتھ والی زندگی بہترہے۔

۲۸ ۔ جوخداكے لیے اپنے كسی بھائی كو فائدہ پہنچائے وہ ايساہے جيسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھربناليا۔

۲۹ ۔ جوخداپراعتمادركھے اوراس پرتوكل اوربھروسہ كرے خدااسے ہربرائی سے بچاتاہے اوراس كی ہرقسم كے دشمن سے حفاظت كرتاہے۔

۳۰ ۔ دين عزت ہے، علم خزانہ ہے اورخاموشی نورہے۔ ۳۱ ۔ زہدكی انتہاورع وتقوی ہے۔ ۳۲ ۔ دين كوتباہ كردينے والی چيزبدعت ہے۔

۳۳ ۔ انسان كوبربادكرنے والی چيز”لالچ“ ہے۔ ۳۴ ۔ حاكم كی صلاحيت رعاياكی خوشحالی كادارومدارہے۔ ۳۵ ۔ دعاكے ذريعہ سے ہربلاٹل جاتی ہے ۔

۳۶ ۔ جوصبروضبط كے ساتھ ميدان میں آجائے وہ كامياب ہوگا۔ ۳۷ ۔ جودنيامیں تقوی كابيج بوئے گا آخرت میں دلی مرادوں كاپھل پائے گا۔(نورالابصار ص ۱۴۸ طبع مصر)۔

امام محمدتقی كی نظربندی، قيداورشہادت

مدينہ رسول سے فرزندرسول كوطلب كرنے كی غرض چونكہ نيك نيتی پرمبنی نہ تھی،اس لیے عظيم شرف كے باوجودآپ حكومت وقت كی كسی رعايت كے قابل نہیں متصورہوئے معتصم نے بغدادبلواكرآپ كوقيدكرديا، علامہ اربلی لكھتے ہیں ، كہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت راازمدينہ طيبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود(كشف الغمہ ص ۱۲۱) ۔

ايك سال تك آپ نے قيدكی سختياں صرف اس جرم میں برداشت كیں كہ آپ كمالات امامت كے حامل كيوں ہیں اورآپ كوخدانے یہ شرف كيوں عطا فرماياہے بعض علماء كاكہناہے كہ آپ پراس قدرسختياں تھیں اوراتنی كڑی نگرانی اورنظربندی تھی كہ آپ اكثراپنی زندگی سے بيزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آگيا كہ آپ صرف ۲۵/ سال ۳ ماہ ۱۲/ يوم كی عمرمیں قيدخانہ كے اندرآخری ذی قعدہ (بتاريخ ۲۹/ ذی قعدہ ۲۲۰ ہجری يوم سہ شنبہ) معتصم كے زہرسے شہيدہوگئے (كشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسينیہ ص ۵۴) ۔

آپ كی شہادت كے متعلق ملامبين كہتے ہیں كہ معتصم عباسی نے آپ كوزہرسے شہيدكيا (وسيلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمكی لكھتے ہیں كہ آپ كوامام رضاكی طرح زہرسے شہيدكياگيا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسين واعظ كاشفی لكھتے ہیں كہ ”گويندیہ زہرشہيدشہ“ كہتے ہیں كہ آپ زہرسے شہيدہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی كی كتاب میں ہے ”قيل مات مسموما“ كہاجاتاہے كہ آپ كی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴) ۔علامہ نعمت اللہ جزائری لكھتے ہیں كہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہيدہوئے ہیں اوريقينا معتصم نے آپ كوزہردياہے، انوارالعنمانیہ ص ۱۹۵)

علامہ شبلنجی لكھتے ہیں كہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہيدہوئے ہیں ”يقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ كہاجاتاہے كہ آپ كوآپ كی بيوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون كے حكم كے مطابق (معتصم كی مددسے) زہردے كرشہيدكيا (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰) ۔

مطالب یہ ہواكہ مامون رشيدنے امام محمدتقی كے والدماجدامام رضاكواوراس كی بیٹی نے امام محمدتقی كوبقول امام شبلنجی شہيدكركے اپنے وطيرہ مستمرة اوراصول خاندانی كوفروغ بخشاہے ، علامہ موصوف لكھتے ہیں كہ ”دخلت امراتہ ام الفضل الی قصرالمعتصم “ كہ امام محمدتقی كوشہيدكركے ان كی بيوی ام الفضل معتصم كے پاس چلی گئی بعض معاصرين لكھتے ہیں كہ امام علیہ السلام نے شہادت كے وقت ام الفضل كے بدترين مستقبل كاذكرفرماياتھا جس كے نتيجہ میں اس كے ناسور ہوگياتھا اوروہ آخرمیں ديوانی ہوكرمری۔

مختصریہ كہ شہادت كے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ كی تجہيزوتكفين میں شركت كی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس كے بعدآپ مقابرقريش اپنے جدنامدار حضرت امام موسی كاظم علیہ السلام كے پہلومیں دفن كئے گئے چونكہ آپ كے داداكالقب كاظم اورآپ كالقب جوادبھی تھا اس لیے اس شہرت كوآپ كی شركت سے ”كاظمين“ اوروہاں كے اسٹيشن كوآپ كے داداكی شركت كی رعايت سے ”جوادين“ كہاجاتاہے۔

اس مقبرہ قريش میں جسے كاظمين كے نام سے يادكياجاتاہے ۳۵۶ ہجری میں مطابق ۹۹۸ ء میں معزالدولہ اور ۴۵۲ ہجری مطابق ۱۰۴۴ ء میں جلال الدولہ شاہان آل بویہ كے جنازے اعتقادمندی سے دفن كئے گئے كاظمين میں جوشاندارروضہ بناہواہے اس پربہت سے تعميری دورگزرے ليكن اس كی تعمير تكميل شاہ اسماعيل صفوی نے ۹۶۶ ہجری مطابق ۱۵۲۰ ء میں كرائی ۱۲۵۵ ہجری مطابق ۱۸۵۶ ء میں محمدشاہ قاچارنے اسے جواہرات سے مرصع كيا۔

آپ كی ازواج اوراولاد

علماء نے لكھا ہے كہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام كے چندبيوياں تھیں جن ام الفضل بنت مامون رشيدعباسی اورسمانہ خاتون ياسری نماياں حيثيت ركھتی تھیں جناب سمانہ خاتون جوكہ حضرت عمارياسر كی نسل سے تھیں، كے علاوہ كسی سے كوئی اولادنہیں ہوئی، آپ كواولادكے بارے میں علماء كااتفاق ہے كہ دونرينہ اوردوغيرنرينہ تھیں، جن كے اسماء یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ، (ارشادمفيد ص ۴۹۳ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ،روضة الشہداء ص ۴۳۸ ، نورالابصارص ۱۴۷ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، كشف الغمہ ص ۱۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ وغيرہ)۔

منبع:http://www.al-shia.com/html/urd/ahlbayt/taqi.htm
نظرات بینندگان
captcha