ایکنا نیوز-خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی ڈوگن نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے محمد چپلق نے بتایا کہ جب انھوں نے اس بچے کی لاش ساحل پر دیکھی تو دعا کی کہ وہ زندہ ہو۔
"جب میں اس بچے تک پہنچا تو میں نے خود سے کہا، اے پروردگار! مجھے امید ہے یہ زندہ ہے، لیکن اُس (ایلان) میں زندگی کے کوئی آثار باقی نہیں تھے، مجھے بہت مایوسی ہوئی"۔
"میرا بھی ایک 6 سال کا بیٹا ہے، جب میں نے اس بچے کو دیکھا تو میرے ذہن میں اپنے بچے کا خیال آیا اور میں نے خود کو اُس بچے کے والد کی جگہ پر محسوس کیا، اس اداس اور المناک منظر کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا"۔
پولیس افسر کے مطابق انھیں اس تصویر کے بارے میں علم نہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گئی، "میں بس اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا"۔
ایلان کردی نامی بچہ اُن 12 شامی پناہ گزینوں میں سے ایک ہے جنھوں نے یونان پہنچنے اور وہاں ایک بہتر زندگی کے حصول کے لیے سمندر میں موت کا سفر کیا اور کشتی ڈوب جانے کے باعث جان کی بازی ہار گئے.
یہ تمام مسافر شامی کرد تھے جنھوں نے گذشتہ برس اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے شدت پسندوں کی وجہ سے ترکی میں پناہ لی تھی.