امام خمینی کے بعد شہید عارف جیسا کوئی رہبر نہیں تھا.ناصر عباس

IQNA

امام خمینی کے بعد شہید عارف جیسا کوئی رہبر نہیں تھا.ناصر عباس

15:46 - August 06, 2018
خبر کا کوڈ: 3504931
بین الاقوامی گروپ: تکفیریوں سے چھپ کر ملنے والوں نے یتیمان آل محمد سے خیانت کی

ایکنا نیوز- اسلام ٹایمز کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے 30ویں برسی کے اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ امام علی علیہ اسلام نے وصیت کی کہ ظالموں کا مخالف اور مظلوموں کا حامی بن کر رہنا، شہید قائد مولا علی علیہ اسلام کے سچے بیٹے تھے، جنہوں نے ظالموں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا تھا، اسی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا، وہ پاکستان کی سرزمین پر مظلوموں کو جمع کرکے انہیں طاقتور بنانا چاہتے تھے، شہید کی قیادت مظلوموں کو طاقتور بنانے کے لئے تھی، شہید کو دیکھ کر ہمت ملتی تھی، طاقت ملتی تھی، شہید دشمن شناس تھے، وہ امریکہ کو سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے، پاکستان کی سرزمین پر مردہ باد کا نعرہ لیکر پہنچے۔ علامہ ناصر عباس نے کہا کہ شہید قائد امریکہ اور اسرائیل کے دشمن تھے، وہ پاکستان کا استقلال چاہتے تھے، پاکستان کی ترقی و پیش رفت چاہتے تھے، ایک خود مختار ملک چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے فیصلے اسلام آباد میں ہوں، شہید قائد ایک باوقار ملک چاہتے تھے۔ امام خمینی کے بعد شہید عارف جیسا کوئی رہبر نہیں تھا، دشمن جانتا تھا کہ اگر اسی طرح عارف حسینی چلتا رہا تو ان کے لئے مسئلہ بنے گا، وہ دوسرا امام خمینی نہیں چاہتے تھے، شہید عارف شیعہ سنی وحدت کو لیکر آگے بڑھ رہے تھے، دشمن کے لئے وہ بہت خطرناک تھے، دشمن پر واضح تھا کہ جب تک شہید قائد کو اپنے راستے سے ہٹا نہیں لیتا، تب تک وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

علامہ ناصر عباس نے کہا کہ قائد شہید امام خمینی کے سچے پیروکار تھے۔ 30 سال بعد بھی قائد شہید کی محبت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، امریکہ مردہ باد کا نعرہ ایک حکمت عملی ہے، جو قائد شہید نے متعارف کرائی۔ شہید کے راستے پر چلتے رہیں گے اور اپنی استقامت سے دشمن کو مایوس کرتے رہیں گے۔ شہید کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ شہید اتحاد و وحدت کے داعی تھے، عالمی استکباری قوتوں نے انہیں شہید کرایا، کیونکہ وہ ان کے غلبے کے لئے چیلنج تھے۔ دشمن نے قائد شہید کو قتل کرکے ہمارا سر کاٹا تھا، اگر اس وقت کھڑے ہوتے تو آج یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ زمانے کے یزید کج فہم اور اندھے ہوتے ہیں، وہ یہ سوچتے ہیں کہ شہادتوں سے تحریکیں رک جاتی ہیں یا حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ شہید کے خون نے کربلا کے سرخ لیکر کو پاکستان تک کھینچا ہے۔ شہید دین و سیاست کو اکٹھا سمجھتے تھے، وہ جدائی کے قائل نہیں تھے۔ مجلس وحدت کی تاسیس کے بعد مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کی طاقت اور قدرت میں اضافہ ہوا ہے، آواز میں طاقت پیدا ہوئی، دشمن ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت توڑنا چاہتا تھا، ہمیں مایوس کرنا چاہتا تھا۔ ہم شہید کے راستے پر چلتے ہوئے دشمن کو سماجی اور سیاسی حوالے سے تنہا کریں گے، یہ عوام کی طاقت ہے۔

نظرات بینندگان
captcha