ایکنا نیوز- ڈان نیوز کے مطابق بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے والے اعصام نے اپنے بل بوتے پر ایک کاروبار کھڑا کیا، ایک مشہور تاجر بنے اور پھر کاروباری مشوروں کی بدولت سوشل میڈیا کی ایک مقبول شخصیت بھی بن گئے۔
وہ رواں سال اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے امریکا جانے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ پی ایچ ڈی کر کے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکیں تاہم ایک سال قبل انہیں دیگر شخصیات کے ہمراہ سعودی حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔
ان تمام افراد پر دہشت گردی اور غداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جس کے جرم میں انہیں سزائے موت یا عمر قید کی سزا دیے جانے کا خدشہ ہے۔
حالیہ عرصے میں سعودی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر متحرک افراد، حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے اور مختلف شعبوں کے ماہرین کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
اعصام پر مشرق وسطیٰ اور خصوصاً شام میں دہشت گردی میں ملوث شدت پسند تنظیم داعش سے تعلق اور اس کی رکنیت کا الزام بھی لگایا گیا جبکہ ساتھ ساتھ ان پر قطر سے روابط کا بھی الزام ہے۔
اعصام پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے احتجاج کا مطالبہ کر کے عام عوام کو سعودی بادشاہت کے خلاف اشتعال دلانے اور اکسانے کی کوشش کی، ریاست کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچانے والی حساس معلومات لیک کیں اور اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کے سائبر کرائم کے بھی مرتکب ہوئے۔
ان کے حامیوں نے ان الزامات، خصوصاً بغاوت کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اعصام مذہبی رواداری کو فروغ دیتے تھے اور سنی متکبہ فکر کے افراد کی اہل تشیع کی مسجد میں نماز پڑھنے اور اہل تشیع کی سنیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
ادھر کاروباری و سماجی شخصیت کے اہل خانہ اور قریبی افراد کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے گرفتاری کے بعد اعصام کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ان کی حالت بہت خراب ہے اور ان کی شخصیت اب مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔