'زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا'، نومسلم لڑکیوں کو شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت

IQNA

'زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا'، نومسلم لڑکیوں کو شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت

13:08 - April 11, 2019
خبر کا کوڈ: 3505974
بین الاقوامی گروپ- اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2 نومسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرنے کا اقدام درست قرار دیتے ہوئے انہیں ان کے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔

ایکنا نیوز- ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تاہم اپنے فیصلے میں کہا کہ دونوں لڑکیوں، عائشہ عرف روینا اور ندا عرف ریما، کے شوہروں کے خلاف دیگر کسی عدالت میں جاری کیس پر مذکورہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہوگا۔

مذہب تبدیل کرنے والی دونوں نومسلم لڑکیوں اور ان کے شوہروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں پولیس پر انہیں ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نومسلم لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے تحقیقات کے لیے 5 رکنی کمیشن بنایا تھا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ہندو لڑکیوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا یا ان سے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔

اس کمیشن میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شریں مزاری، معروف مذہبی اسکالر مفتی تقی عثمانی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن، نیشنل کمیشن آن وومن کی چیئر پرسن خاور ممتاز اور معروف صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم رضا کار آئی اے رحمٰن شامل تھے، جنہوں نے تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کا معاملہ نہیں۔

سیکریٹری داخلہ عظیم سلیمان اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو کمیشن کے نتائج سے آگاہ کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے معاونت کی گئی ہے۔

اس سے قبل آئی اے رحمٰن نے عدالت میں پیش ہو کر کہا تھا کہ 'پاکستان میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون موجود نہیں ہے' اور انہوں نے اس حوالے سے عدالت کو حکم جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔

اس حوالے سے جب پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز رمیش کمار روسٹم پر آئے تو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت کو اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق قانون میں ترمیم کا حکم دیں۔

 

جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب قانون سازی کرنے والے خود کو مجبور تصور کرتے ہیں تو انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یہ سادہ سا کیس تھا جس کا فیصلہ جلد ہوگیا، لیکن اس طرح کے کیسز کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے عدالت نے اسکالرز اور پیشہ ورانہ طور پر معروف افراد پر مشتمل 5 رکنی کمیشن تشکیل دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 'عدالت یہ تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ یہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کا معاملہ تو نہیں'۔

سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ لڑکیوں کی عمر کی نشاندہی کے لیے بتائے گئے میڈیکل کمیشن کے مطابق لڑکیوں کی عمر 19 اور 18 سال ہے۔

 

یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں پی آئی ایم ایس نے میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جس میں عائشہ کی عمر 19 سال اور ریما کی عمر 18 سال بتائی گئی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے غیر قانونی معاونت کا سینٹر کام کررہا ہے اور ساتھ ہی تجویز دی تھی کہ اسے قانون کے دائرے میں لانا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہ کیس وفاقی حکومت کی جانب سے گھوٹکی میں 2 نوعمر لڑکیوں کی مبینہ طور پر جبری مذہب کی تبدیلی اور شادی کے واقعے پر لیے گئے نوٹس کے بعد سامنے آیا تھا۔

اس واقعے سے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر 2 علیحدہ ویڈیوز گردش کر رہی تھیں، جس میں ایک میں لڑکیوں کے والد اور بھائی کی جانب سے کہا گیا کہ دونوں بہنوں کو اغوا کیا گیا اور جبری طور پر ان کا مذہب ہندو سے اسلام میں تبدیل کردیا گیا۔

تاہم دوسری جانب لڑکیوں کی وائرل ویڈیو میں یہ کہتا ہوا دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

 

بعد ازاں دونوں نومسلم بہنوں اور ان کے شوہروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

درخواست میں دونوں بہنوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اور بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔

درخواست میں وزارت داخلہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، آئی جی پولیس پنجاب،سندھ اور اسلام آباد، پیمرا، پاکستان ہندو کونسل کے نمائندہ اور رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اور دونوں لڑکیوں کے والد ہری لعل کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا میں ہندو لڑکیوں سے متعلق غلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جان کو خطرات ہیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھوٹکی کی دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جانب سے دائر درخواست میں ریاست کو حکم دیا کہ وہ دونوں لڑکیوں کی تحویل میں لے اور ان کا تحفظ یقینی بنائے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پیر کو پولیس نے اس کیس میں نکاح خواں سمیت 7 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

نظرات بینندگان
captcha