کمشنر ہاؤس میں تاجروں اور حکومتی وزرا کی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں تاجروں نے حکومت سے ہفتے میں چھ دن کاروبار کھولنے، شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دینے اور سیل کی گئی دکانوں کو کھولنے سمیت دیگر مطالبات رکھے۔
سندھ حکومت نے شاپنگ مالز کھولنے کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی لیکن دکانوں کے اوقات پانچ بجے سے بڑھانے اور افطار کے بعد کاروبار کی اجازت دینے سے انکار کردیا جبکہ سیل کی گئی دکانیں بھی کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
حکومت سندھ اور انتظامیہ کے تاجر رہنماؤں سے مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے جس کے بعد تاجر رہنما غم و غصے کی حالت میں وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ عجیب سی صورتحال ہو گئی ہے، سندھ میں کچھ ہو رہا ہے، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں کچھ ہو رہا ہے، یہ بہت غلط بات ہے۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ 31 مئی تک کاروبار کے حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا تھا ہم اس پر قائم ہیں لیکن اگر وزیر اعظم نے کسی فیصلے پر ازسرنو غور کرنا ہے تو مناسب طریقہ یہ ہے کہ قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے فیصلے کا جائزہ لیں لیکن میٹنگ کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بجائے خود سے کوئی فیصلے کرنا مناسب نہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ جو این سی او سی کا اجلاس ہوا تھا اس میں وفاقی حکومت کی جانب سے جو تجاویز آئی تھیں اس میں یہ موجود تھا کہ ٹرانسپورٹ کھولی جائے اور یہ کہا گیا تھا کہ شاپنگ مالز اور شاپنگ سینٹرز نہ کھولے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں پنجاب سمیت اکثر صوبوں نے ٹرانسپورٹ کھولنے کی مخالفت کی اور اس کے اگلے دن وزیر اعظم کی زیر سربراہی این سی سی کا اجلاس ہوا جس میں ٹرانسپورٹ پر بات ہوئی اور اکثریت نے پھر اس کی مخالفت کی البتہ پنجاب نے اپنا مؤقف تبدیل کیا۔
سعید غنی نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ ماہرین کی رائے ہے کہ ٹرانسپورٹ نہ کھولی جائے لیکن ہم پر لوگوں کا دباؤ ہے اسی لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ جہاز اور دیگر ٹرانسپورٹ کی اجازت دے دیں لیکن وہاں پر بھی اکثریت نے ٹرانسپورٹ کھولنے کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی دستاویز میں ان فیصلوں کو 31 مئی تک لاگو کیا گیا ہے لیکن اچانک یہ فیصلے تبدیل کر کے کہا جاتا ہے کہ ہر صوبہ اپنا فیصلہ کرے۔