زهرا مصطفوی: گھر والوں سے محبت امام(ره) کی زندگی میں نمایاں تھی

IQNA

زهرا مصطفوی: گھر والوں سے محبت امام(ره) کی زندگی میں نمایاں تھی

9:15 - June 06, 2020
خبر کا کوڈ: 3507724
تہران(ایکنا) امام خمینی کی بیٹی زهرا مصطفوی نے لبنان میں منعقدہ سیمنیار«خاندان امام خمینی(ره) کی نگاہ میں» سے خطاب میں کہا کہ امام سب سے شدید محبت کرتے تھے۔

آن لاین سیمینار«خاندان سے محبت امام خمینی(ره) کی نگاہ میں» جمعہ کو لبنان میں ایرانی ثقافتی مرکز کے تعاون سے منعقد ہوا۔

 

امام خمینی(ره) کی اکتیسویں برسی پر منعقدہ سیمینار ۱۶:۳۰ کو زوم ایپیلیکشن پر منعقد ہوا اور اس میں کویت، لبنان، ایران اور الجزایر سے خواتین شریک تھیں۔

زهرا مصطفوی کے پیغام کا خلاصہ کچھ یوں تھا:

بسم الله الرحمن الرحیم

 

خوشی ہے کہ آپ سے گفتگو کا موقع ملا ہے

 

بہنو اور بھائیوں

 

انقلاب سے پہلے اور بعد کے تمام مشکل مرحلوں کے باوجود خاندان کے افراد سے محبت امام کا خاصہ تھا. میری نظر میں ایک انقلابی اور مثالی رھنما کی حیثیت سے

امام ایک بےنظیرلیڈر تھے جبکی زندگی میں نظم و ضبط، گھروالوں سے مہربانی نمایاں تھی۔

 

جلاوطنی کے وقت انکے خطوط میری ماں کے نام اور گھر میں بچوں سے کھیلتے ہوئے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

 

ایک ایسی عالمی شخصیت کا بچوں سے کھیلنا شاید مشکل معلوم ہو تاہم انقلابی سرگرمیاں اور حکومت داری بھی امام کی گھریلوں زندگی متاثر نہ کرسکی۔

 

امام خمینی (ره) کی زندگی سے بخوبی درس ملتا ہے کہ ایک عظیم انقلابی شخصیت ہوتے ہوئے بھی گھریلو زندگی میں سادہ اور محبت سے لبریز زندگی ممکن ہے۔

 

امام مصروفیات کے باوجود روزانہ تین بار ۲۰ گھر کے صحن میں واک کرتے اور سب بچوں کو معلوم تھا کہ انکے واک کا وقت کونسا ہے اور اسی وقت ہم انکے پاس جاتے اور سوالات پوچھتے۔

انکی باریک بینی کا اندازہ لگائے کہ ایک بار وہ واک کرتے کمرے میں جانا چاہتے تھے میں انکے پاس گئی تو وہ واپس لوٹے اور واک شروع کیا میں نے کہا کہ کیا کمرے میں نہیں جارہے تھے کہا نہیں چند سیکنڈ باقی ہے۔

 

امام مطالعے کے ساتھ بچوں کے ساتھ بھی کیھلتے اور انکے کھیل بھی مختلف ہوتا مثلا  (۷ یا ۸ سال) کے ساتھ فزیکل گیم کھیلتا اور کمزور بچوں کی مدد بھی کرتےاور بڑے عمر کے بچون کے ساتھ فکری گیم کھیلتے جیسے مشاعرہ، مکان کی جستجو اور کتابخوانی وغیرہ میں انکی رہنمائی فرماتے۔

 

مطالعے کے باوجود ماں اور بیوی کے لیے شدید اہمیت کے قایل تھے. اور ان کے درس کا نتیجہ تھا کہ انکی وفات کے بعد بھی گھر میں سب ماں کی باتوں پر عمل کو لازم سمجھتے. مجھے یاد ہے کہ اکثر میری ماں کمرے میں آتی تو بھول جاتی کہ دروازہ بند کرتے لیکن امام تسلی سے صبر کرتے اور جب میری ماں بیٹھ جاتی تو امام خود اٹھ کر دروازہ بند کرتے اور امام حتی بچوں سے بھی نہیں کہتا کہ وہ دروازہ بند کرے، یہ اکثر ہوتا۔

 

مہمانوں سے ملنے جاتے تو سادہ مگر صاف کپڑے پہنتے تاکہ مہمان کو برا نہ لگے۔

امام گھر میں بچوں کے درمیان فرق کے قایل نہ تھے اور سب کی تعلیم کے حصول میں مدد کرتے. مجھے یاد ہے زندگی کے آخری دنوں جب وہ دل کے آپریشن کے لیے ہسپتال می تھے میرے پی ایچ ڈی کے امتحانات تھے. اس دن امام کا آپریشن نہ ہوا اور کل کے لیے آپریشن کا فیصلہ ہوا تو امام جو جانتے تھے کہ میں ان سے بہت محبت کرتی تھی انہوں نے سفارش کی تھی کہ مجھے نہ کہا جائے کہ آپریشن کل ہوگا. کل جب میں انکے پاس خداحافظی کے لیے گئی تو امام نے مجھے آغوش میں لیکر کہا کہ گبھرانے کی بات نہیں میرا آپریشن نہیں ہوا ہے۔

امام نے یہ کہا تاکہ امتحان کے لیے میں پریشان نہ ہو حالانکہ میرے جانے کے فورا بعد وہ آپریشن روم گئے اور یہ میری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔/

والسلام

3903069

نظرات بینندگان
captcha