معروف عالم، عارف اور محقق شیخ نعمت اللہ کی تفسیر قرآن «الفواتح الالهيه والمفاتح الغيبيه» جو شیخ علوان، بابا نعمت، علوان آق شهری، بابا نعمتالله اور بابا نخچیوانی کے ناموں سے معروف ہے کی لکھی گیی ہے وہ محمود نچیوانی کے فرزند تھے۔
تفسیر کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں کہ جان لو کہ یہ خدا کی مدد، الطافات اور اشارے پر لکھی گیی ہے اور اسی لیے اس کا نام
«الفواتح الالهیة و المفاتح الغیبیة الموضحة للکلم القرآنیة و الحکم الفرقانیة» رکھا گیا ہے۔
انہوں نے دیگر تفاسیر کی مدد لیے بغیر ایسے نکات سادہ الفاظ میں بیان کیے ہیں جو دیگر نے اشارہ تک نہیں کیا ہے. اس کتاب کا اصل نسخہ استنبول کی احمد خان کاخ توپقاپی لائبریری میں موجود ہے. یہ کتاب سال ۱۹۹۹ کو مصر میں بھی شائع ہوچکی ہے۔
نامور عالم و عارف نعمتالله نخچیوانی یا بابا نعمتالله کی کتاب الفواتح الالهیه و المفاتح الغیبیه پر ریسرچ نخچیوان کے پارلیمنٹ کے اسپیکر «واصف طالب اُف» کے کہنے پر سال ۲۰۱۸.میں شروع کیا گیا، کتاب کے مترجم جو آذربایجانی میں کیا گیا محترمہ«نرگس اسماعیل اوا» کے زریعے سے کیا گیا۔
کتاب تین جلدوں میں آزری زبان میں ترجمہ اور «عجمی» پبلیکیشن میں شایع کی گیی.
نعمتالله نچیوانی کا تعارف
نعمتالله فرزند محمود نخچیوانی صوفیه کے معروف عالم تھے جو پندرہویں صدی میں پیدا ہوئے اور پچاس سال تک نخچیوان میں رہے، وہ شروع سے انتہائی زہین و فھیم تھے اور اسلامی درس نخچیوان میں مکمل کیا۔
سلطان یعقوب آق قویونلو (۱۴۹۰-۱۴۷۸) میں وہ نخچیوان میں درس دیا کرتے تھے پھر انہوں نے عرفان پر کام شروع کیا اور نخچیوان سے نکل کر اہم اسلامی مراکز پہنچے ، تبریز میں انہوں نے معروف عالم «دده عمر روشنی» سے ملاقات اور کسب فیض کیا۔
تبریز میں مختصر مدت میں انہوں نے خوب استفادہ کیا اور دیگر علما جیسے صنع الله کوزه کنان (متوفی در سال ۱۵۲۳) ، درویش آهی خسروشاهی (متوفی در سال ۱۵۳۰) کی صحبت سے فایدہ اٹھایا۔
بابا نعمتالله نے سال ۹۰۵ (۱۴۹۹ میلادی) کو تبریز سے نکل کر اناطولیہ میں سکونت کی ، وہاں پر انکا چرچا ہوا اور انہوں نے ایک خانقاہ کی بنیاد رکھی اور لوگ جوق در جوق انکی طرف آنے لگے۔. بابا نعمتالله پندرہ سال تک آق شہر میں رہے اور سال ۱۵۱۴ کو دار فانی سے انتقال کرگیے۔
انہوں نے کئی عرفانی کتابیں لکھی اور الفواتح الالهيه والمفاتیح الغيبيه ( غیب کی چاپی اور فتح الهی)، هدایت الاخوان (عرفانی کتاب)، فصوص الحکم محی الدین بن عربی، حاشیهای بر تفسیر فتح القدیر، تفسیر فارسی گلشن، راز شیخ محمود شبستری ، أنوارالتنزيل و أسرارالتأویل پر حاشیہ، جو «تفسير بيضاوى» کے نام سے معروف ہے انکے آثار میں شمار کیے جاتے ہیں۔/