اویغور رھنما ایکنا سے: شدت پسندی سے جنگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد جاری ہے

IQNA

اویغور رھنما ایکنا سے: شدت پسندی سے جنگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد جاری ہے

12:50 - February 22, 2021
خبر کا کوڈ: 3508935
تہران(ایکنا) اویغور عالمی کانگریس کے سربراہ دولکون عیسی کے مطابق سال ۲۰۱۶ سے شدت پسندی سے جنگ کے نام پر کیمپس بنائے گئے ہیں جہاں پر زبردستی تیس مسلمان اویغور کو اذیت دی جارہی ہے۔

حالیہ سالوں میں چین میں مسلمانوں پر سختی کے حوالے سے کافی خبریں گردش کررہی ہیں جہاں شدت پسندی سے جنگ کے نام پر مسلمانوں کے عقاید پر سختی کی جارہی ہے

دولکون عیسی(پیدائش ستمبر ۱۹۶۷) سینک یانگ چین کے سیاسی رھنما ہے، وہ عالمی اویغور کانگریس کے سربراہ بھی ہے انہوں نے چین میں مسلمانوں کے حوالے گفتگو کی ہے جسکا خلاصہ حاضر خدمت ہے:

 

ایکنا ـ آخری سالوں میں‌ اویغور اقلیتی مسلمانوں پر شدید دباو کی وجہ کیا ہے؟

 

جواب دینے سے پہلے عرض کرنا چاہونگا کہ ہم (اویغور) اقلیت نہیں، اگرآبادی کے لحاظ سے دیگر ممالک کی آبادی سے مقابلہ کیا جائے تو بہت سے ممالک اس کے مقابلے میں اقلیت ہے اور دوسری بات یہ کہ مسلمانوں پر ستم تازہ نہیں بلکہ دنیا اب متوجہ ہورہی ہے۔

مشکلات کا آغاز سال ۱۹۴۹ سے ہوتا ہے جب چین نے مشرقی ترکستان کو سین‌کیانگ کا نام دیا جس کا معنی چینی حدود ہے

اور چین نے دعوی کیا کہ یہ چین کا جدا شدہ حصہ ہے۔

 

چین نے نہ صرف اویغور بلکہ تبت اور مغولستان میں بھی اصلاحات شروع کیا اور ۲۰۱۴ کو شی جینگ پینگ چینی صدر نے اویغور کو ضم کرنے کی بجایے نسل کشی کی سیاست شروع کی تاہم چین ایک عالمی طاقت ہونے کی وجہ سے اس کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے ورنہ انہوں نے اس دور میں مہاجر کیمپوں میں جبرا تیس لاکھ اویغور کو قید کردیا ہے۔

چین نے بہت کوشش کی کہ ان کیمپوں کو مخفی رکھے مگر عالمی دباو پر مان لیا مگر بہانہ بنایا کہ یہ ہنر سیکھانے کے مراکز ہیں حالانکہ یہاں بہت سے دانشور لوگ بند ہیں میری بوڑھی ماں یہاں پر اسیر تھی حالانکہ وہ بوڑھی عورت کیا سیکھ سکتی ہے؟

 

بعد میں چین نے کہنا شروع کیا کہ یہ کیمپس دہشت گردی سے نمٹنے کے مراکز ہیں حالانکہ یہاں سب مسلمان قید ہیں۔

اویغور رھنما ایکنا سے:شدت پسندی سے جنگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد جاری ہے

ایکنا ـ یعنی شدت پسندی سے مقابلہ کا صرف بہانہ ہے اصل میں مقصد مسلمانوں پر دباو ڈالنا ہے ؟

اور صرف «سلام‌ علیکم» کہنے پر جبری کیمپوں میں بھیجا جاتا ہے؟

ویڈیو کا کوڈ

جی ہاں چیک کرنے پر آپ کے موبائل سے کوئی معمولی مذہبی چیز نظر آجائے تو آپ گیے، آسٹریلین مرکز (Australian Strategic Policy Institute) در کی رپورٹ کے مطابق صرف سال‌ ۲۰۱۷ میں آٹھ ہزار مساجد چین میں گرائے گیے ہیں۔

 

روزہ رکھنا، مسجد جانا یا محمد، علی، موسی، عیسی و خدیجه کا نام رکھنا رسمی طور پر منع کیا گیا ہے.

 

اور ایک دوسرے کو «سلام علیکم». کہنا بھی آپ کو دہشت گردوں میں شمار کرسکتا ہے۔

ایکنا ـ حجاب کے حوالے سے کیا صورتحال ہے؟

 

حجاب یا داڑھی رکھنا جرم ہے اور سور کا گوشت زبردستی کھلایا جاتا ہے۔ دکان پر حلال لکھنا منع ہے اور اگر کسی شادی کی محفل میں سور کا گوشت پیش کیا جائے تو آپ انکار نہیں کرسکتے۔

دکانوں پر سگریٹ اور شراب بیچنا لازمی ہے اور اگر دکان دار یہ نہ کریں تو دکان سیل کیا جائے گا. کیمونسٹ پارٹی نے رسمی طور پر کہا ہے «اسلام ایک افسوسناک آئیڈلوجی ہے». ہمارے ساتھ عیسائیوں اور بودھوائیوں پر بھی دباو ہے۔

 

ایکنا ـ میانمار کے برعکس چین پر انسانی حقوق کی طرف سے کوئی دباو نہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسلامی ممالک سے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے؟

 

افسوس کے ساتھ ایسا ہی ہے اور بہت سے اسلامی ممالک تعلقات کی وجہ سے چین سے کچھ نہیں کہتا۔

 

اگر ایک مسلمان ملک اعتراض کریں اور سب اسکا ساتھ دیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

 

ایکنا ـ سلسلہ کہاں تک چلے گا اور دنیا سے کیا توقعات ہیں؟

 

چین کے ارادہ بہت خطرناک ہے وہ اویغور کے نام و نشان اور تشخص ختم کرنے پر تلا ہے اور انکی آبادی کو کنٹرول کیا جارہا ہے دنیا کو خاموش نہیں رہنا ہے اور یہی واحدہ راستہ ہے کہ چین کو ان اقدامات سے روکا جاسکتا ہے۔

 

اگرچہ بعض ممالک نے اعتراض کیا ہے مگر یہ کافی نہیں، ایران، سعودی اور پاکستان سمیت اسلامی کانفرنس تنظیم کو سخت موقف اپنانا ہوگا۔

 

ایکنا ـ کیا اویغور رھنماوں نے چین سے برراہ راست ملاقات کی ہے؟

 

نہیں کیونکہ چین انکو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا مثلا پروفیسر الهام توهتی(Ilham Tohti)، نے کوشش کی کہ وہ چین سے اویغور کے مسئلے پربات کرے مگر انکو عمر قید کی سزا سنائی گیی، اسی طرح اویغور کانگریس نے کاوش کی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔

گفت‌وگو  محمدحسن گودرزی

3955066

نظرات بینندگان
captcha