ہم فلسطین کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

IQNA

ہم فلسطین کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

8:53 - May 11, 2021
خبر کا کوڈ: 3509268
جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان لوگوں سے تمہارا کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہئے- حکم قرآن

قرآن مجید انسان کی ہدایت کےلئے اترا ہے اور اللہ چاہتا یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ تباہ نہ ہوجائے کوئی بھی انسان تباہ نہ ہوجائے اسی وجہ سے قرآن مجید مختلف حوالوں سے انسان کو بچانا چاہتا ہے ارشاد پروردگار ہو رہا ہے پروردگارعالم ظلم کی مخالفت کرتا ہے قرآن ظالمانہ نظام توڑنے آیا ہے اسی وجہ سے فرمایا: جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان لوگوں سے تمہارا کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہئے اگر تم ان ظالمین کے ساتھ باطنی تمایل اور باطنی رغبت بھی پیدا کرو تو تم جہنم سے نہیں بچ سکو گے اس لئے کہ کسی ظالم کے ظلم پہ راضی ہونا یا اس پہ خاموشی اختیار کرنا یہ خود ظالمین کے صف میں اس بندے خدا کو لے جائے اور اسی طرح کوئی معاشرہ کسی ظلم پہ اگر خاموش ہے تو وہ معاشرہ اس ظالم کے ظلم میں برابر کے شریک ہے اسی وجہ سے ہم بہت ساری روایتوں میں پڑھتے ہیں  شیعہ سنی محدثین نے ان روایتوں کو نقل کرکے انکی سند بھی صحیح ہے اور یہ روایتیں قرآنی آیتوں کی تائید میں ہے اس لئے قرآن مجید نے دستور دیا کہ ظالم کی مدد تو اپنی جگہ بلکہ ظالم کی طرف توجہ بھی نہ کرے اگر کوئی معاشرہ ظالم کے ظلم پر راضی ہو جائے تو وہ ظالمین کے ساتھ ہے بعض روایتیں بھی ہے کہ معصوم فرماتے ہیں  الراضی بفعل قوم کداخل فیہ جو کسی قوم کے کسی بھی کام پہ راضی ہوجائے تو گویا کہ وہ اس قوم میں داخل ہے۔

اب کسی قوم کے عمل کو ہم دو صورتوں میں تقسیم کرسکتے ہے یا تو اس قوم کا عمل اچھا عمل ہے اور اس اچھے عمل پہ ہم خوش ہوجائے تو اس قوم کےلئے پروردگار جو اجر وثواب عطا فرمائے گا وہی اجر وثواب پروردگاعالم ہمیں بھی عطا کرے خوش ہونے والوں کو بھی عطا کرے کیونکہ اس قوم کا ایک حصہ ہے اس وجہ سے اس قوم کے عمل میں برابر کے شریک ہے اور دوسرا پہلو اس قوم کے منفی اور غلط کردار کا ہے وہ قوم کوئی مثبت عمل انجام نہ دے بلکہ اس قوم کا عمل ظالمانہ ہے اگر اسکے عمل پہ ہم راضی رہے اور دوسری حدیث میں پیغمبر فرماتے ہیں:  من احب قوما حشر معھم جو شخص کسی قوم سے محبت کرے تو پروردگار اسی قوم کے ساتھ اسے قیامت میں اٹھائے گا یہاں پر امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث ہے آپ فرماتے ہے من احب حجرا حشر معہ: جو کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو قیامت کے دن اس پتھر کے ساتھ وہ محشور ہوجائے گا اس لئے اپنی رضایت کےلئے جن چیزوں کا انتخاب کرتے ہو اس میں ہمیں بڑے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ معصوم فرماتے ہے ومن احب عمل قوم حشر فی عملھم: جو کسی شخص کے عمل سے محبت کرے گا تو وہ اس عمل میں شریک بن جائے گا تو آج خداوند عالم نے کسی سے محبت کرنے کا یا کسی سے نفرت کرنے کا قرآن حکم دیتا ہے تو وہ ایک عادلانہ رفتار اور ظالمانہ سوچ کی وجہ سے ہے۔

یوم القدس کے ایام  ہیں  یہ اسلام کا دن ہے اور یہ انسانیت کا دن ہے آج یوم القدس ہم کیوں مناتے ہے دراصل یوم القدس میں ہم ظالم سے نفرت کرتے ہے ہم یہ اعلان کرتے ہے سڑکوں پہ آکے کہ ہم ظالم کے ظلم میں شریک نہیں ہیں  دیکھو انسان ظلم کا عمل ہاتھ سے روک سکتا ہے تو اسے روکے اگر وہ بھی نہ کرسکے تو کم ازکم زبان سے روکے اگر وہ بھی نہ کرسکے تو دل میں نفرت پیدا کرکے اسے بیزاری کا اعلان کرے تاکہ قیامت کے دن اس ظالم قوم کے ساتھ ہمیں پروردگارعالم محشور نہ کرے اسی وجہ سے آج عالم اسلام سراپا احتجاج ہے کہ آج فلسطینی ہوں یا کوئی اور جہاں کہیں پر ظلم ہو اسلام اسکے مذھب کو نہیں دیکھتا اسلام کہتا ہے ظالم ظالم ہے ولو وہ تمہارے اقربیں میں سے ہی کیوں نہ ہو تو ہمیں ظالم سے نفرت کرنے کا حکم ہے ولو وہ ہمارے ابا واجداد ہی کیوں نہ ہو اگر ہم ظالمین کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں ایک تو مظلوم کی حمایت ہے مظلوم کی حمایت ہمارا دین کا دستور ہے اس لئے صحیح بخاری سے لے کر ہماری معتبر حدیثوں کی کتابوں میں پیغمبر کی یہ حدیث آپ پڑھیں گے کہ پیغمبر نے فرمایا: من اصبح ولا یحتم بامور المسلمین فلیس بمسلم؛ جو کوئی بندہ صبح کرے لیکن مسلمانوں کی حمایت نہ کرے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی طرف اسکی اگر توجہ نہ ہوتو وہ لاکھ کلمہ پڑھے وہ لاکھ نماز پڑھے وہ لاکھ روزہ رکھے وہ کئی بار حج کرے وہ کئی بار خیرات کرے تب بھی وہ مسلمان کہلانے کا حق نہیں ہے اس لئے  اسکے سینے میں درد نہیں ہے اور اگر اس کے سینے میں کسی انسان کےلئے درد ہو اگر اس کا دل کسی اور انسان کےلئے تڑپے تب وہ انسان کہلانے کا حقدار ہے   اگر کسی مسلمان کے گھر سے جنازے اٹھ رہے ہوں کسی مسلمان کی حیا اور ناموس محفوظ نہ ہوں مسلمان بچے ظلم کے زندانوں میں سڑ رہے ہوں تو ایسے امور میں مسلمانوں کی خاموشی جرم ہے لیکن آج مسلمان کیوں خاموش ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ اجتماعی غیرت نہیں رہی مسلمان ملکوں میں اگر عوام بیدار ہیں  تو حکام نمبر ایک بےغیرت ہیں  نمبر ایک بےحیا ہیں انکو مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں ہے ہم تو اپنے ملک میں مسلمانوں کا جینا حرام کر رہے ہیں لیکن قرآن کہہ رہا ہے سورہ مبارکہ انفال آیت نمبر46 پروردگار عالم ایک نظام عزت دے رہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو معاشرے میں تمہاری عزت ہو اور تم سر اٹھا کے چلو تو پروردگار ایک فارمولا دے رہا ہے واطیعوا اللہ ورسولہ عزت اسی کی ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اور رسول کی اطاعت کرے اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت سے نکلے اس کےلئے عزت کا کوئی تصور نہیں ہے اور اس کے بعد دوسرا دستور جو دے رہا ہے ولا تنازعوا آپس میں جھگڑے نہ کرو اختلاف نہ کرو آج مسلمان اگر بدبختی کے شکار ہے آج مسلمان اقتصادی حوالے سے آئی ایم ایف کے قرضوں تلے مسلمان ملک دب چکے ہے آج سانس لینے کی قدرت ان ملکوں میں نہیں ہے ابھی ہمارے فرزند دنیا میں آئے نہیں ہے لیکن وہ مقروض ہے آئی ایم ایف کے کیوں نالائق حکمرانوں کی وجہ سے جو قرضہ تو لے لیکن قومی ترقی پہ خرچ کرنے کے بجائے انکے اپنے جیب یہ پیسے چلے جائے اسی وجہ سے قرآن کہہ رہا ہے ولا تنازعوا جھگڑے نہ کرو مسلمان ملکوں کےلئے آپس میں اتحاد برقرار کرو ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھنیچے کوئی دوسرا ملک آگے بڑھے تو دوسرا ملک سے ہضم نہیں ہوتا کوئی مسلمان شخصیت آگے بڑھے تو دوسرے شخصیتوں سے وہ برداشت نہ ہو ہم کس اندھے معاشرے میں زندگی کر رہے ہیں  نام تو اسلام کا ہے لیکن کام سارے کافرانہ ہے تو قرآن کہہ رہا ہے آپس میں نہ جھگڑو نہ سیاسی فساد نہ اقتصادی فساد نہ ثقافتی فساد نہ اجتماعی فساد نہ حقوقی فساد قرآن کسی فساد کو تحمل نہیں کرتا فتفشلوا وتذھب ریحکم؛ اگر تم لڑتے رہو تو تم خود کمزور ہوجاو گے تو جو قوم یا ملک کمزور ہوجائے وہ دوسروں کے آگے سر اٹھا کے بات نہیں کرسکتا بلکہ وہ سر جھکا کر غلام بن کر کشکول لئے ہوئے دوسروں سے بیگ مانگتا ہوا وہ ملک آپکو نظر آئے گا اور اسکی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اسی وجہ سے قرآن نے کہا فتفشلوا تم کمزور پڑھ جاو گے اور قدرت کے اعتبار سے بھی ضعیف علم کے اعتبار سے ضعیف اقتدار کے اعتبار سے ضعیف آج کیوں ستر سالوں سے فلسطین کا مسئلہ چل رہا ہے لیکن ساٹھ کے قریب مسلمان ملک ہونے کے باوجود ایک فلسطین کو آزاد نہ کراسکا وجہ کیا ہے فتفشلوا آپس میں نزاع کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور پڑھ چکے ہے  حالانکہ امام امت امام خمینی رم علیہ کا ارمان ہے فلسطین آپ نے فرمایا ہے کہ فلسطین آزاد تو ہوجائے گا جسطرح رہبر معظم انقلاب نے فرمایا فلسطین آزاد ہوجائے گا اور بہت جلد فلسطین آزاد ہوجائے گا لیکن ہم بعنوان مسلمان ہمارا کیا کردار ہے اس فلسطین کی آزادی میں تو اگر ہم یہی نزاع کرتے رہیں گے۔

ہم فلسطین کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

آج ہم ایک فلسطین کی حمایت کرنے سے عاجز ہے حالانکہ اسرائیل کی حیثیت کیا ہے امام راحیل نے فرمایا کہ سارے مسلمان ایک بالٹی پانی اٹھا کر اسرائیل کے سر پہ ڈالے تو یہ پانی سیلاب بن کر اسرائیل کو بہا کر لے جائے یعنی اسرائیل کا وجود باقی نہ رہے لیکن کہاں امام کی یہ بصیرت آموز باتیں اور کہاں یہ مسلمان حکمران کہ جو آپس میں لڑتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے مسلمانوں کا اقتدار مسلمانوں کی شوکت مسلمانوں کی قدرت کمزور پڑ چکی ہے اور قرآن نے کیا خوبصورت تعبیر بیان کی وتذھب ریحکم؛ اور تمہاری ھوا نکل جائے گی یعنی تم اس قدر ذلیل بن جاو گے اب تمہارا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا اس وجہ سے: واعدوا لھم ماستطعتم من قوہ؛ قرآن کہہ رہا ہے اپنی طاقت اور قدرت کو یکجا کرو سیاست میں آکر تم آگے بڑھو تو آج ویٹو پاور فقط انگشت شمار ملکوں کی نصیب نہ ہوجائے بلکہ تم ان ملکوں کو مجبور کرو کہ وہ حق ویٹو استعمال کرے تو فلسطین کی آزادی کےلئے استعمال کرے۔

آج مسلمان ملک اگر متحد ہوجائے تو اسلامی سپر پاور اور اسلامی ملکوں کا ویٹو پاور آپ اقوام متحدہ سے تسلیم کرا سکیں گے آج اگر روس اور آمریکہ کے پاس ویٹو پاور ہے تو کیا ساٹھ اسلامی ممالک ایک آمریکہ کے مقابلے میں نہیں ہے اور یہ کتنا افسوس ہے کہ مسلمان فقط نام کے رہ گئے میدان عمل میں نہ یہ کشمیر کو بچا سکے، نہ یہ فلسطین کو بچا سکے، بلکہ آج ایک غاصب اسرائیل نے مسلمانوں کے ناک میں دم کرکے رکھا ہے اور قرآن کہہ رہا ہے یہ یہودی روئے زمین پر دو مرتبہ فساد پھیلائیں گے سورہ مبارکہ اسراء میں پروردگارعالم خبر دی اور آج اگر اسرائیل کے فساد دیکھے تو اسرائیل جو فساد پھیلاتا ہے یہ فقط فلسطین میں نہیں آج اگر آپ دیکھے کرونا کہ جس وباء میں مسلمان اور غیر مسلمان ممالک اس کرونا کی بیماری میں مبتلا ہے لیکن اسکا ایجاد کرنے والا بھی اسرائیل تو آج تمام جھان اس بیماری میں گرفتار ہے تو آج بھی قرآن ہمیں راستہ دیکھا رہا ہے اگر مسلمان متحد ہوجائے تو فلسطین آزاد ہوگا کشمیر آزاد ہوگا نہ فقط ان جگہوں کو آزاد کراسکیں گے بلکہ مسلمان اقوام عالم میں ایک سپر پاور بن کر اپنی طاقت منوا سکیں گے۔

آج ہمارے لئے قرآن معیار ہوجائے اور قرآن کے قوانین اجتماعی اور قوانین اقتصادی وسیاسی قوانین پہ ہم عمل پیرا ہوجائیں  تو ہم ایک با افتخار قوم بن جائے اور جسکی وجہ سے ہم دنیا کو اپنے کنڑول میں لے سکیں گے ہم اگر ظالمین کی حمایت کرتے رہیں گے تو قرآن کہہ رہا ہے وما کنا مھلک القرا اھلھا ظالمون قرآن کہہ رہا ہے ظالمین کی حمایت کرنے والے لوگ خود ظالم ہے اور ان ظالمین نے ہلاک ہونا ہے قرآن کہہ رہا ہے کتنے ظالم معاشرے تھے کتنے ظالم ممالک تھے کتنے ظالم اقوام تھے کہ ہم نے سب کو ہلاک کردیا سب کو نابود کردیا سب کو صفھای ہستی سے مٹا دیا کیونکہ وہ لوگ ظالم تھے خود ظلم کرتے تھے اور ظالمین کی حمایت کرتے تھے ظالمین کے ظلم کےلئے مقدمے فراہم کرتے تھے زمینہ سازی کرتے تھے اس وجہ سے ہم نے سب کو مٹا دیا آج یقین جانے فلسطین والے آزاد ہو جائیں گے اور یہ جیت جائیں گے اگر ہار کسی کے مقدر میں ہے وہ اسرائیل اور اسرائیل نواز طاقیتں ہیں  کہ عنقریب یہ طاقتیں زوال پذیر ہوجائے اور صفہ ہستی سے یہ طاقتیں اور انکی حمایت کرنے والے لوگ سب انشا اللہ مٹ جائیں گے اور فلسطین کی آزادی کا ہم جشن منائیں گے

 نصر من اللہ وفتح قریب۔

بقلم: ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی، محقق، استاد جامعہ المصطفی یونیورسٹی

نظرات بینندگان
captcha