ڈان نیوز- کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں نے مزدوروں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک اس لیے کیا تھا تاکہ پھر کبھی کوئی تاج محل جیسی یادگار نہ بنا سکے۔
تاہم ایلٹ نیوز کے ایک کالم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ شاہ جہاں نے مزدوروں کے ہاتھ کاٹے تھے اور یوں لگتا ہے کہ یہ واقعہ تاریخ کے کسی موڑ پر گھڑ لیا گیا تھا۔
مزید یہ کہ اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ شاہ جہاں نہیں چاہتا تھا کہ اس جیسی کوئی دوسری یادگار بنے تو بھی عقل نہیں مانتی کہ اس عمل سے ان کا یہ مبیّنہ مقصد پورا ہوجاتا۔ کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ تاج محل کی خوبصورتی اور عمدگی درحقیقت اس عمارت کو ڈیزائن کرنے والے کے تصور، تخیل اور جمالیاتی سوچ کا بیرونی مظہر ہے۔ چنانچہ اگر شاہ جہاں کو نشانہ بنانا ہی تھا تو اس عمارت کے آرکیٹیکٹ کو بناتا۔
آرکیٹیکٹ کی مہارت کا کمال منصوبے کی تخلیقیت، ڈیزائن اور اس بات میں نظر آتا ہے کہ اپنے ڈیزائن اور منصوبے کے ذریعے وہ کس قدر اپنے تخیل اور جمالیاتی سوچ کے اظہار میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن جب پہلی بار یہ کام ہوگیا تو اب منفرد طرزِ تعمیر کی حامل تاج محل کی عمارت بن جانے کے بعد اس طرح کی معماری سے نابلد منصوبہ کاروں اور ڈیزائنروں کے لیے بھی اسی طرح کی عمارت کھڑی کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ مزدور، نقاش، سنگ تراش و دیگر وہی کام انجام دیتے ہیں جس کی ہدایت آرکیٹیکٹ دیتا ہے (یہاں ان کاریگروں کی کاریگری کو معمولی بتانا ہرگز مقصود نہیں کیونکہ اس طرح کے نفیس کاموں کے لیے زبردست ہنر مطلوب ہوتا ہے)۔
یونیسکو نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ تاج محل کی عمدگی دراصل شاہ جہاں کے لیے کام کرنے والے باغبانی کے منصوبہ کاروں اور آرکیٹیکٹوں کی بے مثال تخلیقی سوچ کا ثمر ہے۔ آرکیٹیکٹ کے تخیل میں بننے والے محرابوں اور گنبدوں کے خاکوں نے حقیقت کا روپ دھار کر عمارت کی جمالیاتی حُسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تاج محل کے منصوبے کے لیے آرکیٹیکٹوں کا پورا بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کے سربراہ استاد احمد لاہوری تھے۔
اگر شاہ جہاں اس جیسی دوسری عمارت کے وجود میں آنے کے مخالف تھے تو پھر آرکیٹیکٹ بھی ان کے ظلم سے نہیں بچیں ہوں گے۔
فن اور فنِ تعمیر کی آسٹرین تاریخدان ایبا کوچ مغل فنِ تعمیر پر سند رکھتی ہیں۔ وہ اپنی کتاب The Complete Taj Mahal and the Riverfront Gardens of Agra میں اس قصے کو تاج محل کی سیر کروانے والے 'گائیڈوں کی کہانی' قرار دیتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کہانی کا موازنہ Motif-Index of Folk-Literature کے مصنف اسٹتھ تھامسن کے مرتب کردہ قصوں سے کرتی ہیں۔
تھامسن کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے وہ (شاہ جہاں سے منسوب قصے کے علاوہ) اس سے ملتے جلتے 3 قصوں کا ذکر بھی کرتی ہیں:
ایسی ہی ایک کہانی ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر واقع سینٹ باسل گرجے سے بھی منسوب ہے۔ اس عمارت کو قازان کی روسی زار ایوان کے ہاتھوں شکست کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ زار ایوان نے Posnik Yakovlev نامی اس عمارت کے آرکیٹیکٹ سے بینائی چھین لی تھی تاکہ وہ اس جیسا دوسرا شاندار چرچ تعمیر نہ کرسکے مگر تاریخ دان اس کہانی کی تصدیق نہیں کرتے۔