مفہوم شفاعت قرآن مجيد كی نظر میں

IQNA

مفہوم شفاعت قرآن مجيد كی نظر میں

فكرونظر گروپ: شفاعت ايك ايسا موضوع ہے كہ جس میں اسلامی فرقوں میں بہت زيادہ اختلاف پايا جاتا ہے جبكہ قرآن مجيد نے اس مسئلے میں مؤمنين كی رہنمائی كی ہے ذيل میں اس مسئلہ پر كچھ قرآنی استدلالی كی طرف سے اشارہ كيا جائے گا۔
بين الاقوامی قرآنی خبررساں ايجنسی "ايكنا'' كی رپورٹ كےمطابق فرقہ وہابيت پيغمبر اسلام (ص) كے لیے قيامت كے دن شفاعت كو جائز قرار ديتا ہے جبكہ دوسروں كے لیے حتی كہ شيعوں كے ائمہ كے لیے خاص كر كے دنياوی امور میں شفاعت كو ترك قرار ديتا ہے۔ بعض كہتے ہیں كہ مطلق شفاعت جھوٹ ہے اور شفاعت كا مطلب رہنمائی كرنا اور راستہ دكھانا ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے كہ قرآن مجيد نے واضح كہا ہے كہ ملائكہ، انبياء اور اولياء كے لیے شفاعت جائز ہے ليكن اس كے لیے دو شرطیں ہیں (۱) خدا كے اذن سے ہو (۲) ان افراد كو شفاعت شامل ہو گی جو خاص شرائط كے حامل ہوں گے يعنی شفاعت قانون اور ضابطے كے بغير نہیں ہے بلكہ خود شفاعت ايك الہی قانون ہے۔ چنانچہ قرآن مجيد میں ارشاد ہوتا ہے" من ذالذی يشفع عندہ الا باذنھ" كون ہے جو خدا كے اذن كے بغير اس كے پاس شفاعت كرے ۔(بقرہ۔ آيت نمبر ۲۵۵)
پس جس شفاعت سے منع كيا گيا ہے اور اسے كفر قرار ديا گيا ہے۔ وہ شفاعت استقلالی ہے نہ وہ شفاعت كہ جس كی خود خدا نے اجازت دی ہے ليكن اس شفاعت كے بھی واعد و ضوابط ہیں ہر شخص اس شفاعت سے بہرا مند نہیں ہو سكتا۔ مثال كے طور پر بعض افراد ايسے ہیں كہ جو اپنے گھر سے كھانا كھاتے ہیں۔ ليكن بعض افراد ايسے بھی ہیں كہ جو دوسروں كے مہمان بھی بن سكتے ہیں يعنی وہ مہمان بننے كی صلاحيت ركھتے ہیں بغير سبب كے كوئی كسی كا مہمان نہیں بن سكتا۔ قيامت كے دن پيغمبر اكرم (ص) اور ائمہ معصومين اور اولياء كا مہمان بننا حق ہے ليكن ہر كوئی اس مہمانی كا حق نہیں ركھتا۔ قرآن مجيد فرماتا ہے۔ " ولا يشفعون الا لمن ارتضی"
يعنی ملائكہ صرف اس شخص كی شفاعت كرتے ہیں جسے خدا پسند كرتا ہے۔ يعنی وہ شرائط كہ جن كا خدا قائل ہے وہ اس شخص میں پائی جاتی ہوں تو اس وقت ملائكہ اس كی شفاعت كرتے ہیں۔
381466