رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےآج بروز جمعہ عالمی یوم القدس کے موقع پر اپنے خطاب میں عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے دنیا بھر کے عوام خاص طور سے مسلمانوں کی صحت و سلامتی کے دعا کی اور یوم قدس کے حوالے سے فکر انگیز خطاب کیا جو پیش خدمت ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اللہ تعالی سے مبارک مہینے رمضان میں ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں، عید سعید فطر کی انھیں پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور ضیافت خداوندی کے اس مہینے میں موجود رہنے کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج یوم قدس ہے۔ وہ دن جو امام خمینی کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ان چند عشروں میں اس سلسلے میں اس کا بنیادی کردار رہا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اقوام نے یوم قدس کا خیر مقدم کیا اور اسے اولین ترجیح یعنی فلسطین کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کے مشن کے طور پر منایا۔ استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔
اس المئے کی اصلی مجرم اور ذمہ دار مغربی حکومتیں اور ان کی شیطانی پالیسیاں تھیں۔ جس دن پہلی عالمی جنگ کی فاتح حکومتیں مغربی ایشیا کے علاقے یعنی حکومت عثمانیہ کی ایشیائي قلمرو کو سب سے اہم مال غنیمت کے طور پر پیرس کانفرنس میں آپس میں تقسیم کر رہی تھیں، اس علاقے پر اپنے دائمی تسلط کے لئے اس کے قلب میں ایک محفوظ جگہ کی ضرورت انھیں محسوس ہوئی۔ برطانیہ نے برسوں پہلے بالفور منصوبہ پیش کرکے زمین ہموار کر دی تھی اور یہودی سرمایہ داروں کو ہم خیال بنا کر مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صیہونزم نام کی بدعت تیار کر لی تھی۔
اب اس کے عملی مقدمات فراہم ہونے لگے تھے۔ انھیں برسوں سے بتدریج مقدمات ترتیب سے آمادہ کئے جا رہے تھے اور سرانجام دوسری عالمی جنگ کے بعد علاقے کی حکومتوں کی غفلت اور مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنی ضرب لگائی اور جعلی اور بغیر قوم کی حکومت کا اعلان کر دیا۔
اس ضرب کی زد پر سب سے پہلے ملت فلسطین اور اس کے بعد علاقے کی تمام اقوام تھیں۔
علاقے میں بعد کے واقعات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی اور فوری مقصد مغربی ایشیا میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کے لئے ایک اڈا قائم کرنا اور علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و غاصب حکومت کو طاقت کے گوناگوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔
بد قسمتی سے بیشتر عرب حکومتوں نے ابتدائی مزاحمتوں کے بعد جن میں بعض قابل تعریف ہیں، بتدریج ہتھیار ڈال دئے اور خاص طور پر اس مسئلے کے ذمہ دار کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے وارد ہو جانے کے بعد انھوں نے انسانی، اسلامی اور سیاسی فریضے کو بھی اور اپنی عربی غیرت و حمیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور موہوم امیدیں لگا کر دشمن کے اہداف کی تکمیل میں مدد کی۔ کیمپ ڈیوڈ اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہے۔
مجاہد تنظیموں نے بھی شروع کے برسوں میں فداکارانہ جدوجہد کے بعد رفتہ رفتہ غاصب قوت اور اس کے حامیوں سے بے نتیجہ مذاکرات میں پڑ گئیں اور اس راستے کو ترک کر دیا جو فلسطین کی امنگیں پوری کر سکتا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں اور بے اثر بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات، فلسطین کا تلخ اور ناکام تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زیتون کی شاخ دکھانے کا نتیجہ اوسلو کے زیاں بار معاہدے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا اور آخرکار یاسر عرفات کے عبرتناک انجام پر منتج ہوا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع سے فلسطین کے لئے جہاد کا نیا باب کھل گیا۔ پہلے قدم کے طور پر صیہونی عناصر کو باہر بھگانے جو طاغوتی (شاہی) دور میں ایران کو اپنا محفوظ ٹھکانا شمار کرتے تھے اور صیہونی حکومت کے غیر رسمی سفارت خانے کو فلسطینی نمائندہ دفتر کو سونپنے اور تیل کی سپلائی بند کرنے سے لیکر بڑے کاموں اور وسیع سیاسی اقدامات تک ساری کاروائیوں کے نتیجے میں پورے علاقے میں مزاحمتی محاذ وجود میں آیا اور مسئلے کے حل کی امید پیدا ہوئی۔ مزاحمتی محاذ کے نمودار ہو جانے کے بعد صیہونی حکومت کا کام سخت سے سخت تر ہوتا گیا۔ البتہ مستقبل میں ان شاء اللہ اور بھی سخت تر ہو جائے گا۔ لیکن اس رژیم کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکہ نے اس کا دفاع بھی شدت کے ساتھ بڑھا دیا۔ لبنان میں مومن، نوجوان اور فداکار حزب اللہ کی تشکیل اور فلسطین کی سرحدوں کے اندر جوش و جذبے سے معمور تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کی تشکیل نے صیہونی عمائدین ہی نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی دشمنوں کو مضطرب اور سراسیمہ کر دیا تو انھوں نے غاصب حکومت کی فکری و عسکری حمایت کے بعد علاقے کے اندر اور خود عرب معاشرے کے اندر سے ایجنٹوں کی بھرتی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ ان کی پیہم کوششوں کا نتیجہ آج بعض عرب حکومتوں کے عمائدین اور بعض خائن عرب سیاسی و ثقافتی کارکنوں کے روئے اور بیانوں میں نمایاں اور سب کی نظروں کے سامنے ہے۔
اس وقت مقابلہ آرائی کے میدان میں دونوں طرف سے گوناگوں سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں، بس اس فرق کے ساتھ کہ مزاحمتی محاذ روز افزوں اقتدار و امید اور قوت کے عناصر کی فہرست میں مسلسل اضافے کی طرف گامزن ہے جبکہ اس کے برخلاف ظلم و کفر و استکبار کا محاذ روز بہ روز خالی ہاتھ، مایوس اور ناتواں ہوتا جا رہا ہے۔ اس خیال کی روشن دلیل یہ ہے کہ صیہونی فوج جو کبھی ناقابل تسخیر اور برق آسا سمجھی جاتی تھی اور جو دو حملہ آور ممالک کی بڑی افواج کو چند دنوں کے اندر روک سکتی تھی، آج لبنان اور غزہ میں عوامی مزاحمتی فورسز کے سامنے پسپا ہونے اور اعتراف شکست کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود مقابلہ آرائی کا میدان بہت خطرناک ہے، حالات کا رخ بدل جانے کا امکان ہے، دائمی نگرانی لازمی ہے اور اس مقابلہ آرائی کا موضوع حد درجہ اہم، فیصلہ کن اور حیاتی ہے۔ بنیادی تخمینوں میں کسی بھی طرح کی غفلت، سادہ فکری اور غلطی کے بڑے سنگین نقصانات ہوں گے۔
اس بنیاد پر میں ان تمام افراد کو جو مسئلہ فلسطین سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں چند سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔
جو لوگ چند فلسطینی عناصر یا چند عرب ممالک کے حکام کی مصالحتی کوششوں کو اس اسلامی اور انسانی مسئلے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا جواز سمجھتے ہیں، وہ اس مسئلے کے ادراک میں شدید غلطی بلکہ بسا اوقات اس میں تحریف جیسی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
آج دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونے والی اموات کو تو ایک ایک کرکے گن رہی ہے لیکن کسی نے نہیں پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ اور یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید اور گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بہائے جانے والے اس خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے؟ فلسطین میں جاری ان جرائم، غاصبانہ و تخریبی اقدامات اور مظالم کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلامی ممالک کے دسیوں لاکھ مظلوم مردوں اور خواتین کو کوئی شمار کیوں نہیں کرتا؟ مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں دیتا؟ ملینوں فلسطینی ستر سال سے اپنے گھر بار سے دور جلا وطنی میں کیوں رہیں؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کی کیوں توہین کی جائے؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو موت آ گئی ہے۔'بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے'کا اطلاق یمن اور فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین پر نہیں ہوتا۔
دنیا کی ظالم مغربی طاقتوں اور ان سے وابستہ عالمی اداروں کی یہ حالت ہے۔ علاقے میں ان کی بعض ہمنوا حکومتوں کی رسوائی اور ذلالت کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
تو غیور و دیندار مسلم معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اوپر اور اپنی داخلی توانائیوں پر تکیہ کرے، اپنا طاقتور ہاتھ آستین سے باہر لائے اور اللہ پر توکل اور اعتماد کرکے رکاوٹوں کو عبور کرے۔
والسلام علیکم و رحمة الله