امریکی میڈیا ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ صدر جوبائیڈن نے یورپی یونین اور نیٹو کے رکن ملکوں کے آنلائن سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ روس بدھ سولہ فروری کو یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ اس سے قبل امریکی حکام نے اس حملے کے لئے منگل پندرہ فروری کی تاریخ معین کی تھی۔
امریکہ کی جانب سے یوکرین پر ممکنہ روسی حملے کی تاریخ کا تعین ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے کہ روس اور یوکرین کے تعلقات میں پائی جانے والی سخت کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں کے حکام نے یوکرین پر روس کے کسی بھی قسم کے عنقریب حملے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
روس کے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے ارنا کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے صدر ملودیمیر زلنسکی نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں سولہ فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دعوے پر کہا ہے کہ اگر نامہ نگاروں یا کسی اور کے پاس سولہ فروری یا اس کے بعد یوکرین پر روسی حملے کے سلسلے میں کوئی اطلاع یا کوئی دستاویز موجود ہو تو وہ اسے پیش کرے۔
ماسکو نے بھی یوکرین میں نیٹو کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بنا پر یوکرین کے ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے یوکرین پر کسی بھی طرح کے ممکنہ حملے کی تردید کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا ہے کہ سولہ فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے دعوے پر مبنی مغربی پروپیگنڈے کا مقصد صورت حال کو مزید کشیدہ بنانا اور اشتعال پیدا کرنا ہے۔
نیٹو میں شامل فرانس نے بھی اعلان کیا ہے کہ ہفتے کے روز فرانسیسی صدر سے روسی صدر کی گفتگو میں اس بات کی کوئی علامت نہیں پائی گئی ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے۔
روسی حکام نے بارہا امریکہ اور مشرقی یورپ میں اس کے بعض اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس کے خلاف دشمنانہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ روس نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ مغرب اس کی سرحدوں کو لاحق خطرات کو درک کرے اور مشرقی یورپ کی طرف نیٹو کی توسیع سے گریز کرے۔
ماسکو نے مشرقی یورپ میں حالیہ کشیدگی دور کرنے کے لئے کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں مگر امریکہ اور نیٹو نے ان تجاویز کو نظرانداز کر دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کی صورت حال کو کہیں زیادہ کشیدہ ظاہر کر کے اس ملک سے اپنے سفارتکاروں اور شہریوں کو بھی واپس بلا لیا ہے۔