
ایکنا نیوز- الجزیرہ نے خبر دی ہے کہ زغلول راغب النجار، جو قرآن کریم کے سائنسی اعجاز کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے تھے، اتوار 9 نومبر (18 آبان) کو 92 سال کی عمر میں اردن کے دارالحکومت عمان میں وفات پا گئے۔
وہ ایک ممتاز مصری ارضیات دان تھے اور متعدد عرب اور بین الاقوامی جامعات میں تدریس کرتے رہے۔ قرآن و سنت میں سائنسی معجزات کے بیان پر مشتمل ان کی کتابوں، تحقیقی کاموں اور ٹی وی پروگراموں نے انہیں شہرت بخشی۔ اسی وجہ سے انہیں ’’اعجازِ علمی کے پیشگام‘‘ کا لقب ملا اور وہ اس میدان کے نمایاں ترین بانیوں اور نظریہ سازوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی
زغلول راغب محمد النجار 17 نومبر 1933 کو مصر کے صوبہ غربیہ کی تحصیل بسیون کے گاؤں میشال میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پلے بڑھے اور 10 سال کی عمر تک قرآن مجید حفظ کر لیا۔ ان کے دادا گاؤں کے امام تھے جبکہ والد، چچا اور ماموں سب الازہر اور دارالعلوم کے فارغ التحصیل تھے۔
جوانی میں ان کی علمی و قرآنی شخصیت کی تشکیل پر رمضان کی شاموں کے وہ حلقے بہت اثرانداز ہوئے، جن میں گاؤں کے علما قرآن کی تلاوت اور اس کی آیات کے معانی، بالخصوص ان کے لسانی اور تشریعی معجزات پر گفتگو کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ گھر میں اپنے والد سے تفسیر کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔
النجار نے 1951 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قاہرہ یونیورسٹی کے شعبۂ سائنس میں ارضیات کے شعبے میں داخلہ لیا، جہاں سے 1955 میں امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا۔
1959 تک وہ مصر میں اپنے شعبے سے وابستہ رہے، پھر سعودی عرب چلے گئے۔ بعد ازاں وہ اپنے خرچ پر برطانیہ کی ویلز یونیورسٹی گئے، جہاں صرف دو سال میں (جو ایک ریکارڈ سمجھا جاتا ہے) 1963 میں ارضیات میں پی ایچ ڈی حاصل کی۔
مصر میں وہ اخوان المسلمین کے نظریاتی ماحول میں پروان چڑھے۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی وابستگی کے سبب انہیں دو مرتبہ فوجی جیل میں بھی قید کیا گیا۔
زندگی کے آخری برسوں میں وہ اردن کے دارالحکومت عمان میں موجود عالمی اسلامی علوم و معارف یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔
انہوں نے انسان، حیوانات، آسمانوں اور زمین سے متعلق قرآن کے سائنسی معجزات پر لکھا اور یہ واضح کیا کہ تمام مخلوقات کے پیچھے وہ خالق ہے جس نے انسانیت کے لئے ایسا قرآن نازل کیا جو ہماری سائنسی سمجھ سے صدیوں آگے ہے۔ ان کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ قرآن جدید سائنسی علوم کے کئی پہلوؤں میں ان سے پہلے ہی سچائی بیان کر چکا ہے اور ان سے متصادم نہیں۔
النجار قرآن کے سائنسی تفسیر اور سائنسی معجزے میں فرق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسی تفسیر کا مقصد تمام دستیاب علوم کی مدد سے قرآن کی آیات کو بہتر سمجھنا ہے، خواہ یہ علوم قطعی حقائق ہوں یا نظریات اور مفروضات۔
سائنسی معجزے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک چیلنج ہے جس کے ذریعے ہم ثابت کرتے ہیں کہ یہ قرآن — جو 1400 سال قبل ایک ایسی قوم پر نازل ہوا جو زیادہ تر ناخواندہ تھی،اس میں ایسی سچائیاں موجود ہیں جنہیں جدید سائنس نے صرف حالیہ دہائیوں میں دریافت کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دین سے متعلق آیات، جن میں عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات شامل ہیں، واضح اور غیر مبہم ہیں، مگر کائنات سے متعلق ہزار سے زائد آیات اختصار اور اعجاز کے ساتھ بیان ہوئی ہیں جنہیں محض زبان کے آلات سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ جدید سائنسی علم کی روشنی درکار ہے۔
النجار نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ بعض دینی علماءان کے نظریات سے کیوں اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہم دوگانہ نظامِ تعلیم کا شکار ہیں۔ ہمارے دینی علما اور ادبا اپنی فیلڈ میں ماہر ہوتے ہیں، لیکن سائنسی دنیا سے دوری کے باعث اپنے زمانے سے کٹ جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سائنس دان—ڈاکٹر، انجینئر، ماہرین فلکیات اور ارضیات دان—اپنے شعبے میں ماہر ہونے کے باوجود دینی علم کی کمی کے باعث قرآن و سنت کے ساتھ اپنے علم کو ہم آہنگ نہیں کر پاتے۔ میں انہی دو دنیاؤں کے درمیان پل تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
علمی کام
زغلول النجار کی 150 سے زیادہ تحقیقی مقالات شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی تصنیفات میں قرآن و سنت کے سائنسی معجزات، اسلامی فکر اور اسلام و مغرب کے تعلقات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان کی عربی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن میں 45 سے زائد تصنیفات موجود ہیں۔
سائنسی اعجاز کے موضوع پر ان کی نمایاں کتابوں میں شامل ہیں:
قرآن کریم کے سائنسی معجزات کا مسئلہ اور ان سے نمٹنے کا طریقہ
دائرۃ المعارف الاعجاز العلمی فی القرآن الکریم (6 جلدیں)
دائرۃ المعارف تفسیر آیات کیہانیہ فی القرآن الکریم
اعزازات اور ایوارڈز
اپنی علمی خدمات کے دوران النجار کو کئی اہم اعزاز ملے، جن میں شامل ہیں مصطفیٰ برکہ ایوارڈ برائے علوم — جس کے وہ 1955 میں پہلے حاصل کنندہ تھے
صدرِ سوڈان کا اعزازی ایوارڈ
سائنس، ادب اور فنون کا گولڈ میڈل
ڈاکٹر مصطفیٰ برکہ ایوارڈ برائے ارضی علوم
2006 میں دبئی انٹرنیشنل قرآن ایوارڈ
انہیں 1427 ہجری میں ’’سال کی اسلامی شخصیت‘‘ بھی قرار دیا گیا۔/
4316067