استغفار کی حقیقت کلام حضرت علی(ع) میں

IQNA

استغفار قرآن کریم میں/3

استغفار کی حقیقت کلام حضرت علی(ع) میں

7:07 - December 10, 2025
خبر کا کوڈ: 3519625
ایکنا: حضرت علی (ع)نے ایک روایت میں اسٹغفار کے چھ نکات بیان کیے ہیں۔

ایکنا نیوز- روایت میں آیا ہے کہ کمیل بن زیاد نے حضرت علیؑ سے پوچھا: ایک بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کے لیے خدا سے استغفار کرتا ہے۔ استغفار کا معنی اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت نے اجمالی طور پر اسے توبہ قرار دیا۔ کمیل نے استغفار کے طریقے کے بارے میں پوچھا تو حضرت نے فرمایا: جب بندہ کوئی گناہ کرے تو اپنے ہونٹ اور زبان کو حرکت دیتے ہوئے کہے: أستغفرُ الله، اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ اسے حقیقت کے ساتھ جوڑ دے۔ کمیل نے پوچھا: حقیقت سے کیا مراد ہے؟ حضرت نے فرمایا: دل میں یقین رکھنا اور یہ پختہ ارادہ کرنا کہ جس گناہ سے استغفار کیا ہے، اسے دوبارہ نہ کرے۔

کمیل نے عرض کیا: اگر میں ایسا کرلوں تو کیا میں استغفار کرنے والوں میں شمار ہوں گا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں، کیونکہ تم ابھی اس کے اصل تک نہیں پہنچے۔ کمیل نے پوچھا: استغفار کا اصل کیا ہے؟

حضرت نے فرمایا: جس گناہ سے استغفار کیا ہے، اس سے سچی توبہ کی طرف رجوع کرنا؛ اور یہ عابدین کا پہلا درجہ ہے۔ گناہ ترک کرنا ضروری ہے۔ استغفار ایک ایسا نام ہے جس میں چھ معانی ہیں:

گزشتہ گناہوں پر پشیمانی۔

پختہ ارادہ کہ آئندہ کبھی اس گناہ کی طرف نہ لوٹو۔

ہر اس شخص کا حق ادا کرنا جس کا کوئی حق تمہارے ذمہ ہو۔

اللہ کا حق ہر واجب میں ادا کرنا۔

جو گوشت حرام و ناپاک سے بدن پر چڑھا ہو، اسے ختم کرنا یہاں تک کہ جلد ہڈی سے چمٹ جائے، پھر اس کے بعد حلال سے نیا گوشت پیدا ہو۔

جسم کو عبادت کی مشقت اس طرح چکھانا جیسے اسے گناہ کی لذت چکھائی تھی۔

اس تعریف میں حقیقی استغفار توبہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، لیکن جیسا کہ حضرت نے استغفار کی حقیقت کے بارے میں فرمایا، اس کی روح اور حقیقت قلبی ندامت ہے؛ کیونکہ جب تک انسان اپنے گناہ پر دل سے پشیمان نہ ہو، وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ امام رضاؑ فرماتے ہیں: جو شخص زبان سے استغفار کرے جبکہ دل سے پشیمان نہ ہو، حقیقت میں وہ خود کا مذاق اڑا رہا ہے۔

اسی بنیاد پر امیرالمؤمنینؑ "قلبی ندامت" کو توبہ کے ستونوں میں شمار کرتے ہیں۔ ندامت کی اہمیت اس حد تک ہے کہ ایک اور حدیث میں فرمایا: پشیمانی ہی استغفار ہے۔

امیرالمؤمنینؑ کا یہ بیان حق کی پہچان اور تعریف کا معیار ہے اور اسے مبالغہ نہیں سمجھنا چاہیے؛ کیونکہ حقیقی ندامت لازماً گناہ کو نہ دہرانے کے عزم اور ماضی کی تلافی کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی لیے وہ چھ حدود جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں، سب حقیقی ندامت (یعنی روحِ استغفار) کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

البتہ دوسروں کے لیے استغفار صرف یہ ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے۔/

 

 

نظرات بینندگان
captcha