
ایکنا نیوز- گزشتہ چند عشروں میں مغربی محققین کی جانب سے شیعہ مطالعات میں پہلے سے کہیں زیادہ دلچسپی لی گئی ہے۔ اس دوران شیعی worldview میں حضرت فاطمہؑ کے مقام و مرتبے کا زیادہ سنجیدگی سے مطالعہ کیا گیا ہے، اور محققین نے حالیہ برسوں میں آپؑ کی شخصیت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر قیمتی علمی کام پیش کیے ہیں۔
ان محققین میں سے ایک، جنہوں نے حال ہی میں حضرت فاطمہؑ کے حوالے سے کتاب لکھی ہے، آلیسا گَبّائے (Alyssa Gabbay) ہیں، جو یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا، گرینزبورو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
ان کی کتاب "Gender and Succession in Medieval and Early Modern Islam: Bilateral Descent and the Legacy of Fatima" (قرونِ وسطیٰ اور ابتدائی اسلامی عہد میں جنس اور جانشینی: دو طرفہ نسب اور حضرت فاطمہؑ کا میراث) میں وہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کے ان ادوار کا جائزہ لیتی ہیں جن میں نسب کو مرد اور عورت دونوں طرف سے معتبر سمجھا جاتا تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ کی دختر حضرت فاطمہؑ اس مطالعے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ آپؑ نے سنی اور شیعہ معاشروں میں دو طرفہ نسب کو تسلیم کرنے کی نمایاں بنیاد فراہم کی، جو وراثت، جانشینی اور خواتین کی شناخت جیسے موضوعات میں اہم کردار رکھتی ہے۔
یہ کتاب جغرافیائی اور تاریخی تنوع کے ساتھ مردانہ بیانیوں کے متبادل نقطہ نظر پیش کرتی ہے اور خاندانی و نسبی ڈھانچوں کی عوامی فہم کو سمجھنے کے لیے نئے مباحث کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ کتاب اسلام اور جنسیت کے حوالے سے یک رُخی اور روایتی تعبیرات کو چیلنج کرنے والی علمی روایت کا حصہ ہے۔
ایکنا نے ولادت حضرت فاطمہؑ کے موقع پر اس امریکی محقق سے گفتگو کی، جس کا مکمل متن ذیل میں پیش ہے:
ایکنا: تمام مسلم مکاتبِ فکر حضرت فاطمہؑ کو رسولِ اکرم ﷺ کی محبوب بیٹی، ایمان، فروتنی اور طاقت کی علامت سمجھتے ہیں۔ ابتدائی اسلامی مصادر کے مطالعے میں آپؑ کی شخصیت یا زندگی کے کون سے پہلو آپ کے لیے زیادہ نمایاں رہے؟
گَبّائے: حضرت فاطمہؑ کی شخصیت کے بہت سے پہلو نمایاں ہیں، چند کا انتخاب مشکل ہے۔ آپؑ کی رسول اللہ ﷺ کے لیے بے مثال فداکاری بہت اہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپؑ مشکل ترین اوقات میں بھی نبی اکرم ﷺ کے مضبوط سہارا تھیں۔ میں "نورِ محمدی" کے تصور سے بھی متاثر ہوں جو حضرت فاطمہؑ سے منسوب کیا جاتا ہے اور متعدد روایات میں آپؑ سے نور کے ظہور کا تذکرہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپؑ بھی نبیؐ کی طرح الٰہی نور جو علم و معرفت کی علامت ہے کی حامل تھیں۔ ان کی مشہور خطبۂ فدک بھی نہایت اہم ہے، جس میں انہوں نے امت کی سیاسی روش پر تنقید کرتے ہوئے فدک کے حق کا مطالبہ کیا۔ یہ آپؑ کے روحانی اقتدار کی بڑی علامت ہے، چاہے اس موضوع پر اختلاف موجود ہے۔ آخر میں، یہ امر بھی اہم ہے کہ حضرت فاطمہؑ نے جبرئیلؑ کے ذریعے "مصحف" (ایک الٰہی متن) حاصل کیا، جو آپؑ کے اس بلند مقام کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگرچہ آپ نبی یا امام نہیں تھیں، مگر ان کے نزدیک ترین روحانی مرتبے پر فائز تھیں۔
ایکنا: کیا آپ کو ایسے شواہد ملے کہ حضرت فاطمہؑ کے نمونے نے بعد کے مسلم معاشروں میں خواتین کی دینی و اخلاقی شناخت پر اثر ڈالا؟
گَبّائے: بالکل۔ مثال کے طور پر شیعہ علما جیسے ابن بابویہ (شیخ صدوق) اور علامہ مجلسی دونوں نے خطبۂ فدک کو اپنی حدیثی کتب میں درج کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت فاطمہؑ کو عظیم نمونہ سمجھتے تھے۔ آپؑ کو ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو نماز، روزہ جیسے احکامِ الٰہی کی حکمت کو معتبر انداز میں بیان کر سکتی ہیں۔
ایکنا: کچھ محققین حضرت فاطمہؑ کو شفقتِ مادری اور سماجی فعالیت کی علامت سمجھتے ہیں۔ کیا یہ پہلو آج کے اسلامی ڈائیلاگ میں کافی حد تک نمایاں ہے؟
گَبّائے: میرا خیال ہے کہ آج کل محققین آپؑ کے سماجی اور روحانی قائد کے کردار پر زیادہ زور دے رہے ہیں، جو بہت مثبت ہے۔ یہ کردار ان کی ماں ہونے کی حیثیت سے بالکل متصادم نہیں ہے بلکہ دونوں پہلو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
ایکنا: کچھ افراد، خاص طور پر شیعہ حلقوں میں، سمجھتے ہیں کہ حضرت فاطمہؑ کی معنوی اہمیت نسبی بحث سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گی؟
گَبّائے: میں بالکل متفق ہوں کہ آپؑ کی روحانی اہمیت نسب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ میرا مقصد پوری روحانی شخصیت کو بیان کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے ایک ایسے پہلو کو نمایاں کرنا تھا جو نظرانداز ہو جاتا ہے۔ بطور محقق، مجھے علمی غیرجانب داری اور مقدس شخصیات کی درست تصویر کے درمیان توازن رکھنا پڑتا ہے—جو ہر بار ممکن نہیں ہوتا مگر میں بھرپور کوشش کرتی ہوں۔
ایکنا: آج خواتینِ مسلم اور دیگر مؤمنین حضرت فاطمہؑ سے کیا عملی سبق سیکھ سکتے ہیں؟
گَبّائے: میں بطور ایک غیرمسلم خاتون، اپنے سیکھے گئے اسباق بیان کر سکتی ہوں:
مصیبت میں صبر۔ضرورت پڑنے پر ظلم کے خلاف خاموش نہ رہنا، یہ سمجھنا کہ شہرت اور دنیاوی کامیابیاں حقیقی دولت نہیں، بلکہ روحانی مرتبہ اور انکساری اصل قدر ہے اور خاندان کے لیے خود کو وقف کرنا انتہائی قدر والا عمل ہے
ایکنا: خطبۂ فدک کو فکری گہرائی اور خطیبانہ قوت کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ اس کی اہمیت کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
گَبّائے: یہ خطبہ اسلامی تاریخ میں خواتین کی آواز کا بہت طاقتور نمونہ ہے۔ حضرت فاطمہؑ پوری مسلم کمیونٹی کے سامنے کھڑی ہو کر ایک اہم مسئلے پر مضبوط مؤقف اختیار کرتی ہیں۔ اس کے اثرات انتہائی وسیع رہے۔ جیسا کہ عرض کیا، بڑے علما نے اسے اپنی کتب میں حدیث کی طرح درج کیا۔ عصرِ حاضر میں بھی آیت اللہ محمدباقر صدر نے اسے اولین سیاسی احتجاج قرار دیا ہے، اور دوسرے شیعہ علما اسے اہلِ بیتؑ کی خواتین کے اقتدار کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس خطبے کی اہمیت ہمیشہ محسوس کی گئی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
ایکنا: آپ کے مطالعے میں سنی اور شیعہ دونوں مصادر شامل ہیں۔ آپ کے خیال میں کون سی مشترکہ اقدار یا تاریخی حقائق حضرت فاطمہؑ کے بارے میں مسلمانوں کو فرقہ واریت سے بالا تر کرتے ہیں؟
گَبّائے: میری نظر میں تمام مسلمان حضرت فاطمہؑ کی تقویٰ، فداکاری، حکمت اور اخلاص سے محبت رکھتے ہیں۔اگرچہ شیعہ انہیں بہت بلند مرتبہ دیتے ہیں، مگر اہلِ سنت بھی ان کی عظیم شخصیت، نبیؐ سے وفاداری، اہلِ بیتؑ سے محبت اور ان واقعات میں ان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اہلِ سنت کے تاریخی معاشروں مثلاً عثمانی سلطنت میں حضرت فاطمہؑ کو بے پناہ احترام حاصل تھا۔ ایک عثمانی شہزادی مہرمہ سلطان کی وقف نامے میں انہیں حضرت فاطمہؑ کی پاکدامنی سے تشبیہ دی گئی ہے، اور یہ سفارش بھی کی گئی کہ مسجد میں ان کا نام مستقل ذکر کیا جائے۔
درحقیقت اس کتاب کو لکھنے کی تحریک مجھے اُس وقت ملی جب میں نے ہندوستان کے سنی شاعر امیر خسرو کی نظم پڑھی جس میں انہوں نے حضرت فاطمہؑ کی تعریف کی ہے—جو اہلِ سنت و شیعہ دونوں میں آپؑ کے مشترکہ احترام کا واضح ثبوت ہے۔/
4318446