
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، مشیل کعدی، لبنان سے تعلق رکھنے والے مسیحی مفکر، مصنف اور ادیب، اپنی کتاب «زہرا(س) اہلِ ادب کی خواتین میں سرفہرست» کے ایک حصے میں حضرت فاطمہ زہرا(س) کو فضائلِ انسانی کا کامل مظہر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت زہرا(س) کی ولادت کے ساتھ ہی مردسالاری اور بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم کا خاتمہ ہو گیا۔ استبداد سے عورت کی نجات کے لیے حضرت زہرا(س) کی جدوجہد نے عورت کو آزادی عطا کی۔ عرب عورت نے بلند صفات جیسے صبر، شجاعت، دلیری، علم، تقویٰ، فضیلت اور اعلیٰ اخلاق حضرت زہرا(س) ہی سے سیکھے۔ آپؐ نے عورت کو مرد کے برابر طاقت اور اختیار کے مقامات پر فائز کیا۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے اپنی بلند نسوانی شخصیت کے ساتھ ظلم اور ذلت کو قبول نہ کیا بلکہ اس کے مقابل ذمہ داری، الٰہی رسالت کے بھاری بوجھ اور اسلامی احکام کو قبول کیا، اور یوں ایمان اور عورت کی کرامت کے ستون کو مجسم کر دیا۔
ریحانۃ الرسول(ص) اور بتول وہ ہستی تھیں جن سے گفتگو کے لیے رحمتِ الٰہی کے فرشتے زمین پر اترتے تھے؛ اسی بنا پر آپ کو امّ ابیہا کہا جاتا ہے، یعنی باپ کی ماں، اس سے پہلے کہ آپ آسمانِ امامت کے ستاروں کی ماں ہوں۔ جس طرح نسلِ رسولؐ آپ ہی سے شروع ہوئی، اسی طرح آپ دینِ اسلام اور حق کی سیاست کے دفاع کا میدان بھی تھیں۔
اسی لیے یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ رسولِ خدا ﷺ نے فاطمہؑ کو امّ ابیہا فرمایا۔ قرآنِ کریم کی یہ آیات نبی ﷺ کے ہر قول کو اتفاق یا خواہشِ نفس سے پاک قرار دیتی ہیں: «تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گمراہ ہوا ہے، اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتا، یہ تو محض وحی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے» (النجم: 2-4)۔
اسی تناظر میں حضرت زہرا(س) عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے نمونہ ہیں اور پہلی خاتون رہنما اور معلمہ ہیں، جیسا کہ ہم نے انہیں پہلی ادیبہ اور خطیبہ بھی قرار دیا ہے۔
حضرت بتولؑ نے عورت کو سکھایا کہ وہ اپنی عفت اور شرافت کا دفاع کرے، اور اسے شہوت پرستی، ابتذال اور خود نمائی میں گرنے سے روکا جو اخلاقی زوال اور تباہی کا باعث بنتی ہے، کیونکہ یہ رذیل صفات عرب عورت کی پہچان نہیں۔ حضرت زہرا(س) حجاب کو طغیان اور شرارت کے مقابل ایک تلوار کی مانند سمجھتی تھیں۔
آپؐ کے نزدیک حجاب عورت کو خودمختاری اور باطنی عزت عطا کرتا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسیحی خانقاہوں میں راہبات اپنے بال ڈھانپتی ہیں۔ حجاب کا مطلب ہے پاکدامنی، حفاظت، اخلاقی اصولوں سے وابستگی، طہارت اور ہدایت۔
یہ کہنا تعجب کی بات نہیں کہ آج حضرت صدیقہ فاطمہ زہرا(س) کے مقام اور عظمت کی برکت سے مسلمان عورت پوری دنیا میں اخلاق کی علمبردار ہے۔
فاطمہ زہرا(س): رسالتِ الٰہی کی نشانیوں میں سے ایک
جب رسالتِ نبوی رسولِ اعظم ﷺ پر نازل ہوئی تو اس کی تجلی مؤمن مردوں اور عورتوں میں ظاہر ہوئی؛ مردوں میں امام علی ابنِ ابی طالبؑ جنہوں نے قرآن کو اپنے دل، روح اور عقل میں سمو لیا، اور عورتوں میں حضرت فاطمہ زہرا(س) نمایاں ہوئیں۔
امام علیؑ کے ساتھ فہم و ادراک کی قوت، خدا کی قدرت کے ذریعے کمال کو پہنچی، اور حضرت زہرا(س) کے ساتھ یہ رسالت اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ گئی، یہاں تک کہ بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ آپؐ خود ایک معجزہ ہیں۔
اگر امام علیؑ نبیؐ کے معجزے، اسلام کے چراغِ راہ اور قرآنِ کریم کے معلم ہیں جنہوں نے اسے محفوظ رکھا اور اس پر ایمان لائے، تو حضرت فاطمہ زہرا(س) اس حقیقت کی بہترین گواہ ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری ایک حدیثِ قدسی میں رسولِ خدا ﷺ سے نقل کرتے ہیں: «اے احمد! اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا، اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو تم دونوں کو پیدا نہ کرتا…»
حقیقت یہ ہے کہ اس بانو نے کمال اور رفعت کے ایسے مقام کو پا لیا کہ عرشِ الٰہی کے حامل آخری فرشتوں کے مراتب کو بھی درک کیا۔ زہراؑ آسمانی رسالت کی شان، باریک فکری نکات اور مسلم حقیقتوں کا مظہر ہیں۔ آپؐ نہایت سادگی سے انسانیت کی چوٹی کی طرف بڑھیں، یہاں تک کہ دین و دنیا میں ایک بلند مکتب اور تربیتی جوہر بن گئیں جو آپ کے والد رسولِ خدا ﷺ اور قرآنِ کریم کے اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔
وہی قرآن جس نے سورۂ انسان میں حضرت فاطمہؑ کی زندگی، تربیت اور سیرت کا ایک گوشہ دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اس سورت میں قرآنِ کریم نے حضرت زہرا(س) کی ستائش کی ہے کہ آپؐ نے مسلسل تین دن جو کچھ بھی تھا محتاجوں کو عطا کر دیا، اور آپ کے جذبات اس ماں سے بھی بلند تھے جو اپنے بچوں کو دوسروں پر ترجیح دیتی ہے۔ اسی لیے آپؐ نے الٰہی اور دنیوی رسالت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا، گویا اس طریقے سے عورت کو بتاتی ہیں کہ یہی اسلام کا پیغام اور دین کے معانی ہیں۔
فاطمہ زہرا(س) اور ایک امت
حضرت زہرا(س) اپنی عظیم فضیلتوں کے ساتھ جن سے آپؐ زندگی بھر جدا نہ ہوئیں ۔اس امت کے سامنے کھڑی ہیں، کیونکہ آپ رسولِ خدا ﷺ کی امّ ابیہا تھیں، اور اس میں کوئی تعجب نہیں کہ آپ خاندانِ رسالتِ محمدی سے ہیں جن کا مشن جہالت اور قبائلیت سے معاشرے کی اصلاح تھا۔

حضرت فاطمہؑ بچپن ہی سے اپنے والد کی رفیق اور ہمراز تھیں۔ ان کی نگاہ، رسولِ خدا ﷺ کی نگاہ کے قریب تھی، اور سختیوں میں، جب نبیؐ کو دشمنانِ رسالت کی اذیتوں کا سامنا ہوتا، آپؐ ان کی مونس اور تسلی بن جاتیں۔ کئی مواقع پر آپؐ اپنی انگلیوں سے نبیؐ کی پیشانی کا پسینہ پونچھتیں، اپنے موقف پر ثابت قدم رہتیں اور آخری دم تک نورِ الٰہی، امت کے امور اور مسلمانوں و اسلام کے مستقبل کا دفاع کرتی رہیں۔
یہ تمام امور حضرت فاطمہ زہرا(س) کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں، جس طرح قرآنِ کریم نے حضرت مریمؑ بنتِ عمران کا ذکر کیا ہے—اس وقت بھی جب وہ اپنی والدہ کے رحم میں تھیں—اور یہ ذکر آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل کا ہے۔ قرآن میں حضرت مریمؑ کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی روح اور مفہوم حضرت فاطمہؑ پر بھی صادق آتی ہے؛ اسی لیے انسانوں نے آپؐ کو شرافتِ اخلاق اور اعلیٰ فضائل کا معیار قرار دیا ہے۔/
4321865