
آپ کے فرزند نے ایکنا سے گفتگو میں قرآنِ کریم اور امامِ زمانہؑ سے اپنے والد کے گہرے انس و تعلق کی یادیں بیان کی ہیں، جو اس عظیم مرجع کے قرآنی اور معنوی طرزِ حیات کی ایک روشن تصویر پیش کرتی ہیں۔
ایکنا کی فکری سروس نے اس عظیم مرجع کی برسی کے موقع پر ان کے فرزند حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد باقر گلپایگانی سے گفتگو کی۔ ذیل میں اس گفتگو کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے:
ایکنا: گفتگو کے آغاز میں فرمائیے، حضرت آیتاللہ العظمیٰ گلپایگانیؒ کی قرآنی سرگرمیاں کیسی تھیں اور حوزۂ علمیہ اور معاشرے میں قرآن کے فروغ میں ان کا کیا کردار رہا؟
حضرت آیتاللہ العظمیٰ، ہمارے والد نے ایک دارالقرآن کے قیام کا حکم صادر فرمایا جو اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا۔ پہلا اقدام یہ تھا کہ ۳۰ گھنٹوں میں قرآن کی تعلیم دی جائے، اس طرح کہ جو شخص قرآن پڑھنا نہیں جانتا تھا وہ اس مدت میں قرآنِ کریم دیکھ کر پڑھنے کے قابل ہو جاتا۔ طاغوتی دور میں چونکہ مدارس مرجعیت کے اختیار میں نہیں دیے جاتے تھے، اس لیے آپ نے اساتذہ کی تعیین اور تربیت کی اور انہیں حسینیوں اور مساجد میں بھیجا تاکہ گرمیوں کی تعطیلات کے دوران بچوں کو قرآن اور احکام کی تعلیم دی جا سکے۔
سنہ ۱۳۵۱ھ ش (۱۹۷۲ء) میں پورے ملک میں تقریباً ۱۹ ہزار طلبہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ ایک اور اہم اقدام یہ تھا کہ آقا نے قرآنِ کریم کی اشاعت کا حکم دیا اور اس کا عنوان „حوزۂ علمیہ“ رکھا، تاکہ واضح ہو کہ یہ قم میں شائع ہوا ہے۔ یہ قرآن اسی عنوان سے شائع ہوا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب میں دمشق سے مصر جا رہا تھا تو یہ قرآن میرے ساتھ تھا۔ اسکندریہ کے ایک شخص نے جو میرے پاس بیٹھا تھا، پوچھا: کیا آپ جعفری ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے قرآن مجھ سے لیا اور اس کے فہرست، آغاز اور اختتام کا بغور جائزہ لیا۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: ہمیں بتایا گیا ہے کہ جعفریوں کا قرآن ۴۰ پاروں پر مشتمل ہے، مگر اب میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کا قرآن ہمارے قرآن سے کوئی فرق نہیں رکھتا۔ وہ اس بات پر حیران تھا۔ اس طرح ہم پر تہمتیں لگائی جاتی تھیں۔
یہ قرآن قم سے مکہ مکرمہ جانے والے وفود کے ذریعے بعثہ میں لے جایا جاتا اور اسلامی ممالک کے سربراہان اور علما کو بطور ہدیہ پیش کیا جاتا۔ یہ قرآن زِپ والے پہلے قرآنوں میں سے تھا اور اس کی جلد نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب تھی۔
آیتاللہ بروجردیؒ کے انتقال کے بعد جب آقا مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص حافظِ قرآن بنے گا اسے وظیفہ دیا جائے گا، اور حفاظِ قرآن طلبہ کے وظائف دوگنے کر دیے۔ یہاں تک کہ ایران کے تمام حفاظِ قرآن آپ کی جانب سے وظیفہ حاصل کرتے تھے۔
آپ نے دیگر شہروں میں بھی دارالقرآن کے قیام کی معاونت فرمائی۔ ان دارالقرآنوں کی برکت سے ایسی کانفرنسیں منعقد ہوئیں جن میں ایران کے تمام قرآن شناسوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ ان مجالس کی نگرانی کبھی آیتاللہ مکارم شیرازی اور کبھی آیتاللہ سبحانی کے ذمے ہوتی تھی۔
دارالقرآن کی جانب سے قرآن کے موضوع پر مفید کتابیں بھی شائع ہوئیں اور ایسے مقالات تیار کیے گئے جو رسائل میں شائع ہوئے اور „رسالۂ القرآن“ کے عنوان سے عرب ممالک کو ارسال کیے گئے۔ خلاصہ یہ کہ حوزۂ علمیہ میں قرآن کی گہری معرفت کے لیے ایک سنجیدہ تحریک اور سرگرمی پیدا ہوئی۔
نقل کیا گیا ہے کہ تقریباً چھ ماہ تک وجوہات قم نہیں پہنچیں اور مرحوم حاج شیخ نے وظائف کی ادائیگی کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق قرض لیا، لیکن پھر مزید قرض لینا ممکن نہ رہا۔ ہمارے والد مرحوم نقل فرماتے تھے کہ میں مدرسۂ فیضیہ میں تھا کہ ایک منادی نے ندا دی: آقا سید محمد رضا کو بتاؤ کہ حاج میرزا مہدی، ہمارے نانا کو اطلاع دیں کہ حضرت مہدیؑ کے گریہ کی وجہ سے رسولِ اکرم ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ وجوہات قم کی طرف روانہ کی جائیں۔
آقا فرماتے تھے کہ میں نے یہ پیغام آقا میرزا مہدی تک پہنچا دیا۔ اگلے دن جب میں حاج شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا: تمہارا یہ خواب رؤیائے صادقہ تھا، کیونکہ مشہد سے ایک شخص آیا ہے جو ماہانہ طور پر پورا وظیفہ ادا کرے گا۔ اس کے بعد وظائف کی ادائیگی معمول پر آ گئی اور حوزہ دوبارہ کبھی وظائف کی کمی کا شکار نہ ہوا۔
ایکنا: حضرت آیتاللہ العظمیٰ گلپایگانیؒ کی قرآن سے محبت اور انس کی یادیں، خصوصاً آپ کے ختمِ قرآن کے ذریعے، کس طرح بیان کی جا سکتی ہیں؟
مرحوم آقا کو تلاوتِ قرآن میں „طَیُّ اللسان“ حاصل تھا؛ اس طرح کہ آپ ہر پندرہ منٹ میں ایک پارہ تلاوت فرما لیتے تھے اور نہایت روانی کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔ ماہِ مبارک رمضان میں آپ کئی مرتبہ اموات، بے وارث یا کم وارث افراد اور اسی طرح ائمۂ اطہارؑ کے لیے ختمِ قرآن انجام دیتے تھے۔
آپ نمازِ فجر کے بعد بھی اور نمازِ مغرب و عشاء کے بعد بھی قرآن کی تلاوت فرماتے تھے اور قرآن کے ساتھ آپ کا تعلق نہایت گہرا تھا۔ آپ کی سیرت اور معمول یہ تھا کہ جو بھی قرآن آپ کو بطور ہدیہ پیش کیا جاتا، آپ لازماً اس کا ختم کیا کرتے تھے۔
4322925