آسٹریا میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے ہیومن رائٹس کی مذمت

IQNA

آسٹریا میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے ہیومن رائٹس کی مذمت

7:31 - December 20, 2025
خبر کا کوڈ: 3519676
ایکنا: اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان نے آسٹریا کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے جس کے تحت 14 سال سے کم عمر لڑکیوں کے لیے حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ایکنا نیوز- اناطولیہ نیوز کے مطابق، اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ترجمان مارٹا ہورتادو نے پیر کے روز آسٹریا میں حال ہی میں منظور کیے گئے اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا جس کے تحت تمام اسکولوں میں 14 سال سے کم عمر لڑکیوں کے لیے اسکارف (حجاب) پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے، اور یہ سوال اٹھایا کہ آیا یہ اقدام بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔

انہوں نے حجاب پر پابندی کے حالیہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دلائل جو خواتین یا لڑکیوں کی حجاب پہننے کے بارے میں رائے اور انتخاب کو نظر انداز کرتے ہیں، دراصل خواتین کی خودمختاری اور صلاحیت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہیں۔

آسٹریا کا مؤقف ہے کہ یہ پابندی صنفی مساوات کو فروغ دیتی ہے، تاہم اسی نوعیت کی ایک پابندی، جو 2020ء میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے باعث امتیازی سمجھی گئی تھی، ملک کی آئینی عدالت نے 10 سال سے کم عمر لڑکیوں کے حوالے سے کالعدم قرار دے دی تھی۔

مارٹا ہورتادو نے اناطولی کو دیے گئے بیان میں کہا کہ مذہب یا عقیدے کے اظہار کی آزادی پر صرف وہی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں جو قانون کے تحت ہوں اور جو عوامی سلامتی، نظم و نسق، صحت، اخلاقیات یا دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں یہ واضح نہیں ہے کہ حجاب پہننا کس طرح دوسروں کی سلامتی، صحت یا حقوق کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

ہورتادو نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ بعض پابندیاں بظاہر کسی جائز مقصد کے تحت عائد کی جاتی ہیں، لیکن بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان میں تناسب (proportionality) کے سخت اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ اگر کسی پابندی کو جائز مقصد کے تحت درست قرار دیا جائے، تب بھی اس کا مقصد کے ساتھ متناسب ہونا لازم ہے، جبکہ مطلق پابندیوں کو انسانی حقوق کمیٹی غیر معقول تصور کرتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی پابندیوں کو لڑکیوں کی خودمختاری کے تحفظ کے نام پر درست قرار دینے والے دلائل خود امتیاز سے متعلق خدشات کو جنم دے سکتے ہیں۔

انہوں نے خودمختاری، انتخاب اور صنفی امتیاز کے حوالے سے زور دے کر کہا کہ کسی کو بھی کسی مذہبی علامت کو پہننے یا اتارنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔

قانون کے مطابق، جو طالبات اس پابندی کی خلاف ورزی کریں گی، انہیں ابتدا میں اسکول انتظامیہ اور اپنے قانونی سرپرستوں کی موجودگی میں اصلاحی نشستوں میں شرکت کرنا ہوگی۔ بار بار خلاف ورزی کی صورت میں بچوں اور نوجوانوں کی فلاحی خدمات کو مطلع کیا جائے گا، اور آخری مرحلے میں والدین یا سرپرستوں پر 800 یورو (تقریباً 950 ڈالر) تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔/

 

4323295

نظرات بینندگان
captcha