دنیوی زندگی پر استغفار کے اثر کا انداز

IQNA

استغفار قرآن کریم میں/5

دنیوی زندگی پر استغفار کے اثر کا انداز

7:50 - December 21, 2025
خبر کا کوڈ: 3519677
ایکنا: زندگی پر معنوی امور کے اثر پر ایمان رکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مادی اسباب کے کردار کو کمزور سمجھا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مادی عناصر کے ساتھ ساتھ مؤثر معنوی عوامل بھی موجود ہیں، جن میں استغفار جیسے عوامل شامل ہیں۔

ایکنا نیوز- استغفار کے دنیاوی اور اخروی زندگی میں متعدد اثرات ہیں۔ استغفار کے روحانی اثرات تو تقریباً واضح ہیں، لیکن دنیاوی زندگی پر اس کے اثرات کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ انسانی اعمال مجموعی طور پر تین طریقوں سے اثر انداز ہو سکتے ہیں: براہِ راست، بالواسطہ اور غیبی۔

اسلامی جهان‌بینی یا عقیدے کے مطابق تمام مظاہر اپنے خالق کی طرف لوٹتے ہیں (آلِ عمران: 109؛ فاطر: 18) اور تمام امور اس کی مشیت اور "اسباب" کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ یہ اسباب صرف طبعی عوامل تک محدود نہیں بلکہ معنوی عوامل بھی پائے جاتے ہیں جو انسانی مشاہدے اور علم کے دائرے سے باہر ہیں اور جن کی معرفت صرف وحیانی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہے۔

قرآنی آیات کے مطابق انسانی اعمال اور نظامِ تکوین کے درمیان ایک خاص تعلق موجود ہے؛ اس طرح کہ جب انسانی معاشرہ اپنے اعتقادات اور اعمال میں فطری تقاضوں کے مطابق طرزِ عمل اختیار کرتا ہے تو اس پر برکتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جب وہ فساد اختیار کرتا ہے تو وہ خود تباہی کی طرف لے جایا جاتا ہے (الروم: 41؛ الاعراف: 96؛ الرعد: 11؛ الشوریٰ: 30)۔ ان باہمی روابط کا ایک بڑا حصہ قابلِ فہم ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ انسانی علم کی حدود سے باہر ہے۔

حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرماتا ہے: «لا یؤثِرُ عَبدٌ هَوای على هوى نَفسِهِ إلاّ أثبَتُّ أجَلَهُ عِندَ بَصَرِهِ و ضَمَّنتُ السَّماءَ و الأرضَ رِزقَهُ و كُنتُ لَهُ مِن وَراءِ تِجارَةِ كُلِّ تاجِرٍ۔ "میرا کوئی بندہ اپنی خواہش پر میری خواہش کو ترجیح نہیں دیتا مگر یہ کہ میں اس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دیتا ہوں، آخرت کو اس کی فکر اور ذکر بنا دیتا ہوں، آسمانوں اور زمین کو اس کے رزق کا ضامن بنا دیتا ہوں اور ہر تاجر کی تجارت میں اس کے حق میں ہو جاتا ہوں۔" اس حدیث کے آخری الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تجارت بے قاعدہ نہیں بلکہ اس پر ایک منظم نظام حاکم ہے، اور اگر اللہ چاہے تو اس نظام کو کسی تاجر کے حق میں کر دیتا ہے۔

لہٰذا استغفار کا اقتصادی ترقی پر اثر (نوح: 10-12) دو پہلوؤں سے ہے۔ پہلا یہ کہ حقیقی استغفار صرف زبانی معافی مانگنے کا نام نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی آلودگیوں سے نجات کے لیے عملی کوشش بھی ہے؛ چنانچہ اس کے کچھ اقتصادی اثرات انسان کے بہتر رویّے اور اصلاحِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں جو گاہکوں کے اعتماد اور رغبت کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم دینی متون اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استغفار کا غیبی اثر اس سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع ہے۔/

نظرات بینندگان
captcha