
ایکنا نیوز، رصیف نیوز کے مطابق قرآنِ کریم کا اثر محض عرب اور مسلمان شعرا تک محدود نہیں، بلکہ کئی روسی شعرا نے بھی اس کی آیات سے الہام حاصل کیا اور بعض اشعار میں ان کی تقلید کی۔ یہ بات مشہور روسی شاعر الیگزینڈر پوشکین کے آثار میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے، جو ثقافتی، فنی اور روحانی اعتبار سے عربی مشرق سے متاثر تھے۔
مکارم الغمری اپنی کتاب «روسی ادب میں عربی و اسلامی اثرات» میں لکھتے ہیں کہ الیگزینڈر پوشکین (1799–1873ء) ان نمایاں روسی شعرا میں سرفہرست ہیں جنہوں نے قرآنِ کریم اور سیرتِ نبویؐ سے الہام حاصل کیا۔ ان کی نظموں کا مجموعہ «قرآن پر ایک اجمالی نظر» جو 1824ء میں تحریر ہوا، روسی ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ نظمیں اسلامی روحانی ورثے اور سیرتِ رسول ﷺ سے متاثر ہیں اور اس بات کی مضبوط دلیل ہیں کہ قرآنی اقدار زمان و مکان کی حدوں سے ماورا ہو کر ان لوگوں کی روح تک بھی نفوذ رکھتی ہیں جو قرآن کی عظمت پر ایمان نہیں رکھتے۔
پوشکین پر قرآنِ کریم کا روحانی اثر
یہ نظمیں اس اہم کردار کی عکاسی کرتی ہیں جو قرآنِ کریم نے پوشکین کی روحانی نشوونما میں ادا کیا۔
سورۂ ضحیٰ سے پوشکین کا اثر قبول کرنا
«قرآن پر ایک اجمالی نظر» کی قصائد لمبائی اور وزن کے اعتبار سے مختلف ہیں اور ان قرآنی آیات سے ہم آہنگ ہیں جن سے پوشکین نے اقتباس کیا اور انہی کی بنیاد پر اپنی شاعری تخلیق کی۔ نعمات عبدالعزیز طہ اپنے مقالے «اسلام کا روسی ادبا پر اثر… الیگزینڈر پوشکین، میخائل لرمنتوف، لیو ٹالسٹائی اور ایوان بونین» میں لکھتے ہیں کہ پہلی قصیدہ کے ایک حصے میں پوشکین نے قرآنی قسم کی تقلید کی، جیسے متعدد اشعار میں “ستارے کی قسم”۔

عبدالعزیز طہ مزید بتاتے ہیں کہ پوشکین نے سورۂ ضحیٰ سے خاص طور پر اس کیفیت سے الہام لیا جس میں وحی کے کچھ عرصے کے لیے رک جانے پر رسولِ اکرم ﷺ کو پریشانی لاحق ہوئی، جو ایک غیر معمولی وقفہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سورت کی آیات 1 تا 3 میں فرماتا ہے: “قسم ہے چاشت کے وقت کی (1) اور رات کی جب وہ چھا جائے (2) کہ تمہارے رب نے نہ تو تمہیں چھوڑا ہے اور نہ تم سے ناراض ہوا ہے (3)۔”
الغمری کے مطابق، جیسا کہ ان کی مذکورہ کتاب میں آیا ہے، «قرآن پر ایک اجمالی نظر» موضوعاتی اور ذاتی شاعری کا امتزاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب پوشکین کسی قرآنی “اخلاقی قدر” کو نقل کرتا ہے تو وہ اسے براہِ راست قرآن کے متن سے اخذ کرتا ہے اور پھر اپنی داخلی ذات اور فنی عناصر کے ذریعے اسے نئی صورت میں پیش کرتا ہے۔

پوشکین اور تلاوتِ قرآن
اگر پوشکین قرآنِ کریم کے فرانسیسی اور روسی تراجم اور ان کی تفاسیر سے واقف نہ ہوتے تو وہ اپنی شاعری میں ان آیات کی تقلید نہ کر سکتے۔ کیونکہ قرآن میں انبیائے کرام کے واقعات، اس کے فکری و اعتقادی مباحث نے پوشکین کے فلسفیانہ اور ایمانی مکالمے کو گہرے طور پر متاثر کیا۔
الدراوی کے مطابق، پوشکین نے قرآنِ کریم کے دو تراجم بغور مطالعہ کیے: ایک روسی زبان میں میخائل ویرووکین کا ترجمہ اور دوسرا فرانسیسی زبان میں آندرے دو روئیے کا ترجمہ۔ ممکن ہے کہ وہ جرمن ادیب یوہان گوئٹے کی تصنیف «دیوانِ مشرقی» سے بھی واقف ہوں، جس میں قرآنِ کریم، عربی معلقات، مسلمان شعرا کی قصائد، صوفیانہ شاعری، نیز «الف لیلہ و لیلہ» اور سیرتِ رسول ﷺ اور دینِ اسلام سے متعلق جرمن سے ترجمہ شدہ مواد کے اقتباسات شامل تھے، اور اس میدان میں گوئٹے روسی ادیبوں پر سبقت رکھتے تھے۔
پوشکین نے ویرووکین کے ترجمے سے سورۂ بقرہ، کہف، مریم، طٰہٰ، حج، نور، احزاب، محمد، فتح، قیامت، عبس، تکویر، فجر، بلد اور ضحیٰ کی آیات نقل کیں اور ان سے قصے، بامقصد نصیحتیں اور حکیمانہ اسباق اخذ کیے۔
مالک صقور اپنی تحقیق «پوشکین اور قرآن» میں لکھتے ہیں کہ پوشکین نے پہلی بار قرآنِ کریم اس وقت پڑھا جب وہ جلاوطنی کے دوران گاؤں «میخائیلوفسکی» میں مقیم تھے، اور انہوں نے اس کا ذکر اپنی نظم «حفارہ» میں بھی کیا ہے۔/
4322499