
ایکنا نیوز- استغفار کے اس اثر کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ اگر انسان گناہوں کی معافی کے ذریعے آگ (جہنم) سے نجات پا لے تو وہ ابدی کامیابی اور حقیقی فلاح تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» یعنی: جو شخص آگ (دوزخ) سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہی کامیاب ہوا (آلِ عمران: 185)۔
قرآن کی بہت سی آیات میں استغفار کے نتیجے میں گناہوں کی بخشش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ آلِ عمران میں مغفرت اور وسیع جنت کی طرف سبقت کرنے کی دعوت دی گئی ہے (آلِ عمران: 133)۔ اس کے بعد بعض نیک اعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: «الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» (آلِ عمران: 134) یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تنگی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں خرچ کرنا، غصے کو پی جانا، لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا—یہ سب گناہوں کی معافی میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: «وَ الَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَ مَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَ لَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ» ترجمہ: اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کر لیتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کے لیے بخشش مانگتے ہیں—اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخش دے؟—اور جان بوجھ کر اپنے کیے ہوئے گناہ پر اصرار نہیں کرتے (آلِ عمران: 135)۔ اس آیت میں استغفار کی چند شرائط بیان کی گئی ہیں جو گناہوں کی معافی میں مؤثر ہوتی ہیں۔
اگلی آیت میں، ابتدائی آیت (آلِ عمران: 133) کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہوئے، دو اجر بیان کیے گئے ہیں جن میں پہلا گناہوں کی مغفرت ہے: «أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ» (آلِ عمران: 136) اس آیت کے آخری الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ استغفار ایک عملی عمل ہے اور محض دل یا زبان کا ذکر نہیں بلکہ ایک بامعنی اور مؤثر عمل ہے۔/