
ایکنا نیوز- یہ تعبیرات نہ صرف خدا، انسان اور فطرت کے باہمی تعلق کے مختلف زاویوں کو واضح کرتی ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن باران جیسے مظہر کو ایک کثیرالجہتی اور مقصدی زبان میں بیان کرتا ہے۔
قرآنِ کریم بحیثیتِ کتابِ ہدایت، قدرتی مظاہر کے بارے میں ایک جامع اور ہمہ گیر نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ یہ مقدس کتاب زندگی کے دائرے میں بارش کے مادی فوائد، جیسے زمین کو زندہ کرنا، نباتات کو اُگانا اور پینے کے پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسے قدرتِ الٰہی اور نعمتِ خداوندی کی نشانی قرار دیتی ہے اور انسانوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے:
"وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ؛"
اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا، پھر اس کے ذریعے باغات اور وہ دانے اگائے جو کاٹے جاتے ہیں۔ (سورۂ ق، آیت ۹)
تاہم قرآن کی نظر میں باران محض ایک طبعی مظہر نہیں ہے۔
قرآن کا حتمی مقصد انسان کی ہدایت اور اس کی تربیت ہے۔ اسی تناظر میں اس کی ہر آیت حتیٰ کہ وہ آیات بھی جو قدرتی مظاہر سے متعلق ہیں اسی راہ میں انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ چنانچہ جب قرآن بارش کے نزول کے اسباب بیان کرتا ہے تو وہ صرف طبیعی اور موسمی عوامل تک محدود نہیں رہتا بلکہ آیات کے درمیان ایسے اشارات بھی ملتے ہیں جو مادی اسباب سے ماورا ایک اور عنصر کے اثر کی خبر دیتے ہیں۔ اس عنصر کو مجموعی طور پر «معنوی عوامل» کہا جا سکتا ہے؛ یعنی وہ عوامل جو انسانی عقائد، اخلاق اور اعمال سے جڑے ہوئے ہیں اور قرآن کے مطابق فطری نظام، بالخصوص بارش پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ تحریر دو حصوں میں قرآنِ کریم کے زاویۂ نظر سے بارش کے نزول پر اثر انداز ہونے والے معنوی عوامل کی وضاحت کرتی ہے۔
باران کے لیے قرآنی تعبیرات
قرآنِ کریم اپنے بلیغ اور معنویت سے بھرپور اسلوب کے ذریعے بارش کو مختلف الفاظ اور سیاق و سباق میں بیان کرتا ہے۔
مَطَر
لفظ «مَطَر» قرآن میں بارش کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح ہے اور لغوی اعتبار سے عام باران کے معنی رکھتا ہے۔ قرآن میں اس لفظ کا استعمال دوہری حیثیت رکھتا ہے؛ کبھی نعمت اور خیر کے معنی میں، لیکن زیادہ تر عذابِ الٰہی کے ایک وسیلے کے طور پر۔ مثال کے طور پر قومِ نوح کے بارے میں فرمایا گیا:
«فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ» (سورۂ قمر، آیات ۱۱، ۱۲)
اسی طرح قومِ لوط کے عذاب کے بارے میں فرمایا:
"وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ" (سورۂ شعراء، آیت ۱۷۳)
یہ دوگانگی ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کے مطابق ایک ہی قدرتی مظہر حالات اور مخاطب کے اعتبار سے رحمت بھی ہو سکتا ہے اور عذاب بھی۔
غَیْث
اس کے برعکس، لفظ «غَیْث» تقریباً ہمیشہ مثبت اور امید افزا معنی رکھتا ہے۔ یہ اس بارش کے لیے استعمال ہوتا ہے جو قحط اور مایوسی کے بعد نازل ہو اور راحت و کشادگی کا سبب بنے۔ جیسا کہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا گیا:
«وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا» (سورۂ شوریٰ، آیت ۲۸)
طَلّ
یہ لفظ صرف ایک مرتبہ سورۂ بقرہ (آیت ۲۶۵) میں آیا ہے:
«…فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ»
یہاں طَلّ ہلکی اور نرم بارش کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
وَابِل
لفظ «وَابِل» شدید اور موٹی بوندوں والی بارش کے لیے آتا ہے۔ یہ بھی سورۂ بقرہ کی آیات ۲۶۴ اور ۲۶۵ میں تمثیلی انداز میں ذکر ہوا ہے۔
وَدَق
لفظ «وَدَق» قرآن میں دو مرتبہ (سورۂ نور، آیت ۴۳ اور سورۂ روم، آیت ۴۸) آیا ہے۔ لغویین اور مفسرین کے درمیان اس کے دقیق معنی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
صَبّ
لفظ «صَبّ» ایک مرتبہ سورۂ بقرہ (آیت ۱۹) میں آیا ہے:
«أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ…»
فراہیدی کے نزدیک اس سے مراد بارش یا بارش لانے والا بادل ہے۔
مَاء
لفظ «مَاء» (پانی) قرآن میں بیس سے زائد مرتبہ بارش کے معنی میں آیا ہے، خاص طور پر وہاں جہاں یہ «أَنزَلْنَا» یا «السَّمَاءِ» کے ساتھ استعمال ہوا ہے، جیسے:
«وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا» (سورۂ فرقان، آیت ۴۸)
یہ استعمال باران کو زمین کے تمام پانیوں کی بنیادی اور زندگی بخش اصل کے طور پر متعارف کراتا ہے۔
رِزق
بعض آیات میں بارش کو «رزق» کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
«هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا…»
اور:
«وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ» (سورۂ ذاریات، آیت ۲۲)
یہ زاویۂ نظر باران کو محض طبعی مظہر نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے رزق پہنچانے کا وسیلہ قرار دیتا ہے۔
بَرَکَات
بعض مفسرین سورۂ اعراف کی آیت ۹۶ میں مذکور «بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ» سے مراد آسمانی نعمتیں—جن میں بابرکت بارش بھی شامل ہے—لیتے ہیں:
«وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ»
یہ تعبیر اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ قرآن کے نزدیک باران ایک خالص مادی واقعہ نہیں بلکہ ایمان، تقویٰ اور الٰہی نظامِ رحمت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔/
4324570