استغفار جنتیوں کا دنیا میں ورد زبان

IQNA

استغفار قرآن کریم میں/7

استغفار جنتیوں کا دنیا میں ورد زبان

6:49 - December 28, 2025
خبر کا کوڈ: 3519716
ایکنا: قرآنِ کریم کی آیات میں استغفار کو جنت میں داخلے کی ایک بنیادی شرط اور اہلِ جنت کی دنیاوی عادت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔

ایکنا: سورۂ آلِ عمران میں مغفرت اور بے کنار جنت کی طرف سبقت لے جانے کی دعوت دی گئی ہے:

"وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ" (آل عمران: 133)

اس کے بعد بعض اعمال، جن میں استغفار بھی شامل ہے، کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:

"أُوْلَئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ" (آل عمران: 136)

ترجمہ: یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور نیک عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔ یعنی جنتِ الٰہی کی طرف سبقت لے جانے والوں کی صفات میں استغفار کا ذکر بھی شامل ہے۔

اسی سورہ کی ابتدائی آیات میں الٹے اسلوب سے پہلے متقین کے لیے جنتی انعامات بیان کیے گئے، پھر دنیا میں ان کے طرزِ عمل کو یوں بیان فرمایا:

"الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ" (آل عمران: 17)

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے ہیں، پس ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ یہ صبر کرنے والے، سچ کہنے والے، فرماں بردار، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور سحری کے وقت استغفار کرنے والے ہیں۔

سورۂ ذاریات میں پرہیزگاروں کی جنتوں اور چشموں میں موجودگی اور رب کی عطاؤں کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

"إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ - آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ" (الذاریات: 15-16)

ترجمہ: بے شک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے، وہ ان نعمتوں کو حاصل کر رہے ہوں گے جو ان کا رب انہیں عطا کرے گا، اس لیے کہ وہ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکوکار تھے۔ یعنی جنت میں نعمتوں کا حصول، دنیا میں احسان اور نیکی کا نتیجہ ہے۔

اس کے بعد دو مشترک صفات کا ذکر فرمایا:

"كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ - وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" (الذاریات: 17-18)

ترجمہ: وہ رات کو بہت کم سوتے تھے، اور سحری کے اوقات میں استغفار کیا کرتے تھے۔

فعلِ مضارع اس بات کی علامت ہے کہ یہ عمل مسلسل اور دائمی تھا۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شب بیداری اور سحر کے وقت استغفار ان کی مستقل عادت تھی، اور یہ بھی کہ سحر خیزی میں تمام اذکار کے درمیان استغفار کو خاص مقام حاصل ہے اور یہی عبادت کی معراج شمار ہوتی ہے۔/

نظرات بینندگان
captcha