
ایکنا نیوز، خبر رساں ادارے “البوصلة” کے مطابق یہ تقریب صہیونی رژیم کی جانب سے غزہ کی پٹی پر جاری نسل کش جنگ کے دو سال بعد، الشاطئ پناہ گزین کیمپ کی گلیوں میں بھرپور جوش و مسرت کے ساتھ منعقد ہوئی، جس نے کیمپ کی سڑکوں پر خوشی، امید اور استقامت کی فضا دوبارہ قائم کر دی۔
یہ تقریب "غزہ، حافظانِ قرآن کے ساتھ شائستہ ہوتا ہے" کے عنوان سے، ہنگامی کمیٹی کی سرپرستی اور "ایاد الخیر" ادارے اور کویتی فلاحی ادارے “عالیہ” کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ شرکاء نے تلاوتِ قرآن، تکبیر اور تہلیل کے ساتھ منظم قطاروں میں کیمپ کے راستوں پر مارچ کیا اور قرآنِ کریم، فلسطینی پرچم اور امید افزا پلے کارڈز تھام کر ثابت قدمی کا پیغام دیا۔
اس ریلی میں بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ شرکاء کے ہاتھوں میں قرآنِ کریم کے نسخے اور فلسطینی پرچم تھے، جبکہ کیمپ کے مکین راستوں کے کنارے کھڑے ہو کر حوصلہ افزائی اور دعاؤں کے ذریعے ان مناظر کا ساتھ دیتے رہے۔ یوں جنگ سے متاثرہ سڑکیں کچھ دیر کے لیے سکون اور باہمی یکجہتی کے مرکز میں تبدیل ہو گئیں۔

ابتسام ابوحویدی، جو ان حافظات میں شامل ہیں جنہوں نے جنگ کے دوران مکمل حفظِ قرآن کیا، نے کہا کہ بمباری کے سائے میں قرآن حفظ کرنا آسان نہیں تھا، مگر قرآن سخت ترین لمحات میں ان کے لیے قوت اور ثابت قدمی کا سرچشمہ رہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن سے وابستگی امید کو زندہ رکھنے کا راستہ ہے۔

تقریب کے اختتام پر مرد و خواتین حافظانِ قرآن کو تعریفی اسناد اور علامتی تحائف پیش کیے گئے۔ منتظمین نے واضح کیا کہ یہ اقدام غزہ کے مشکل حالات میں دینی شناخت اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے عوامی کوششوں کا حصہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، دو سالہ جنگ کے دوران ۸۳۵ سے زائد مساجد مکمل طور پر اور ۱۸۰ سے زیادہ مساجد جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔/
4325093