ایکنا- نیوز ایجنسی Asia Newsمیں جنوبی کوریا میں اسلامو فوبیا کی صورتحال کا جایزہ لیا گیا ہے: عدالتی حکم کے باوجود کنزرویٹو شہر (دئگو) میں کچھ لوگ مسجد بنانے کی مخالفت پر تلے ہیں.
مذکورہ افراد نے علامتی طور پر ایک سور کی مہمانی کی تقریب منعقد کی اور سور کا سر کاٹ کر مسجد کے سامنے رکھ دیا۔
اس سے پہلے افغانی اور یمنیوں کی ملک میں آمد کو روکنے کی بھی بھرپورمخالفت دیکھی گیی جس سے اس ملک کی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ پاپ کی پیش کردہ تصویر اور حقیقت میں کتنا فرق ہے۔
جنوبی کوریا کو ٹیلی ویژن ڈراموں میں ایک ترقی یافتہ اور آزاد جمہوری ملک پیش کی جاتی ہے جس کو دیکھ کر لوگ اس ملک میں بسنے کی آروز کرتے ہیں مگر۔۔
حال ہی میں شهر دئگو(دائجو) میں مسلمانوں اور مقامی افراد میں مسجد بنانے پر جھگڑا شروع ہے۔
چند سال قبل مسلم طلبا نے ایک خالی مرکز میں نماز خانہ قایم کی تھی تاہم جگہ کم پڑنے کی وجہ سے ستمبر 2020 میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ اس کی تعمیر اور توسیع کی اجازت دی جائے۔
تاہم کچھ مہینے بعد مقامی لوگوں کی شدید مخالفت پر مقامی انتظامیہ نے اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کیا۔
معاملہ عدالت میں چلا گیا جہاں عدالت نے مسلم طلبا کے حق میں فیصلہ سنایا۔
شدید پسند افراد نے اس حکم کے بعد اس راستے جانے والے روٹ کو گاڑیوں سے بند کیا اور اسلام مخالف بینروں سے ناپسندیدگی کا اظھار کیا۔
داهیونگ دونگ میں یہ پھڈا چل رہا ہے جہاں گذشتہ مہینے کو ان لوگوں نے سور کی دوسری مہمانی منعقد کی اور اس طرح سے اپنی ثقافت کا دفاع کا دعوی کیا۔
ان افراد نے سور کے سرکاٹ کر اس زیرتعمیر عمارت کے سامنے رکھ دیا۔
معاملہ تمام شہروں تک دکھائی دیتا ہے جنوب مشرقی شہر اولسان میں بھی مسلم طلبا کے داخلے پر ان لوگوں نے اعتراض کیا تھا جہاں طالبان حکومت کے بعد ان مسلم گھرانوں نے دوبارہ افغانستان کا رخ کیا۔
سال ۲۰۱۸ میں ۵۰۰ یمنی پناہ گزین یہاں فرار کرکے آئے تھے تاہم ان کے بعد حکومت نے مہاجرین بارے پالیسی ہی تبدیل کردی۔
اگرچه جنوبی کوریا کی آبادی بوڑھوں کی آبادی میں تبدیل ہورہی ہے اور ضرورت ہے کہ مہاجرین کو قبول کرے تاہم ایسی فضا صورتحآل کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔/
4125607