ایکنا نیوز- جب مقررہ وقت پر اللہ تعالی انسان کی روح کو قبض کرتا ہے تو انسان کام سے رہ جاتا ہے اور پھر انکے روحانی آنکھ اور کان کھل جاتے ہیں،
جب فرشہ اجل یعنی عزرائیل آتے ہیں تو دو طرح سے انسانوں سے بات کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں«اے فلاں! تیرے پروردگار تجھ پر سلام بھیجتا ہے» اور بعض سے کہتے ہیں«ایےگناهکار! کافی ہے؛ روح کو لوٹا دے» اور پھر خطرناک ترین شکل میں روح واپس لیا جاتا ہے۔
موت کے فرشتے کبھی انسان کو آتشی گرز سے مار کر جان لیتے ہیں، رویات جو رسول اسلام(ص) سے بیان ہوئے ہیں اس کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جنکے کردار سیاہ تھے۔
پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے یتیموں کا مال کھایا ہے جھوٹے گواہی دیتے ہیں ظالم ستمگر بادشاہ ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہے یہ لوگ ہے جن سے سخت حالت میں روح لی جاتی ہے۔
ان سے عزرائیل روح لیتے وقت «سجیل» نامی پتھر سے جان لیتے ہیں. سجیل جہنم کے سب سے نچلے طبقے کے پتھر ہے.
جب انسان کے بدن سے روح خارج ہوجاتی ہے تو آخرت میں اپنا مقام دیکھتی ہے اگر انسان مومن ہوگا تو خوبیوں اور اچھی جگہ کو دیکھ لے گا اور برا ہوگا تو بدترین ٹھکانا دیکھ لے گا۔
اس طرح کی آگاہی انسان میں خوف ایجاد کرے گا اور پھر ایسا انسان دنیا میں اپنے کردار کی اصلاح کی طرف توجہ کرسکتا ہے۔
ایک اور راستہ جس سے انسان کردار سدھار کر سکون کی طرف جاسکتا ہے اس کی طرف دعا ابوحمزہ ثمالی میں اشارہ ہوا ہے: «وَ جُدْ عَلَي مَنْقوُلاً قَدْ نَزَلْتُ بِكَ وَحيداً في حُفْرَتي وَ ارْحَمْ في ذلِكَ الْبَيتِ الْجَديدِ غُرْبَتي حَتّي لا اَسْتَاْنِسَ بِغَيرِكَ:
اور جب مجھے قبر میں منتقل کیا جائے گا اور تنھائی کے عالم میں قبر میں داخل ہوجاونگا ، مجھ پر اپنی مغفرت کر اور اس غربت کے عالم اور نیے ٹھکانے میں مجھ پر رحم کر تاکہ میں تیرے غیر سے مانوس نہ ہوجاوں.» (دعا ابوحمزه ثمالی سے اقتباس)
* دعا اَبوحَمزه ثُمالی چوتھے امام سجاد(ع) کی دعا ہے جس میں خدا کی صفات اور قیامت کی سختی کی طرف اشارہ ہے۔