
ایکنا نیوز، خبر رساں ادادے muslimsaroundtheworld کے مطابق، آلبانیہ جنوب مشرقی یورپ کا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جو یونان، صربستان اور مقدونیہ کا ہمسایہ ہے، اور اس کا دارالحکومت تیرانا ہے۔ اس ملک کی 70 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
اسلام کے آلبانیہ پہنچنے کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ آلبانیہ کا اسلام سے پہلا رابطہ ایرانی تاجروں کے ذریعے ہوا، جو بالکان پر عثمانیوں کی حکمرانی سے پہلے یہاں آئے۔ ایک اور رائے کے مطابق آلبانیوں نے اسلامی تعلیمات سے عرب "سیسیلی" مسلمانوں کے ذریعے خاص طور پر علاقے لِگا میں آشنائی حاصل کی۔
آلبانیہ نے کئی عظیم اسلامی علماء کو جنم دیا جنہوں نے اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی نمایاں شخصیات میں سے ایک وہبی اسماعیل حقی تھے۔
وہبی اسماعیل حقی (Vehbi Ismail Haki) سن 1919 میں شمالی آلبانیہ کے قدیم شہر اشکودرا میں پیدا ہوئے۔ عثمانی دورِ حکومت (1479-1912) کے دوران اشکودرا شمالی آلبانیہ میں اسلامی ثقافت کا مرکز بن گیا تھا، جہاں بہت سے ممتاز اسلامی علماء پیدا ہوئے۔
وہبی کے والد شہر کے معروف امام جماعت اور صاحبِ علم شخص تھے، جن کے پاس عربی، عثمانی اور فارسی زبانوں میں ہزاروں کتابوں پر مشتمل نہایت قیمتی ذاتی کتب خانہ تھا۔ ان کے والد کے اشعار، جو آلبانیائی رسم الخط میں تحریر ہوتے تھے، صدیوں پر محیط آلبانیائی اسلامی علمی روایت کی مثال تھے۔ انہی روایات نے وہبی اسماعیل کی علمی تربیت پر گہرا اثر چھوڑا۔
قاہرہ کی جانب ہجرت
وہبی اسماعیل کا قاہرہ جانا اس دور کی تبدیلیوں کا حصہ تھا جب 1923 سے آلبانیائی طلبہ مصر میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مصر میں "آلبانیائی مسلم کمیونٹی" بھی اسی زمانے میں قائم ہوئی۔ وہبی اسماعیل نے جامعۃ الازہر سے 1945 میں گریجویشن کی۔
تاہم وہ اپنے وطن واپس نہ جا سکے کیونکہ وہاں کمیونسٹ حکومت قائم ہوچکی تھی جو مذہبی افراد کے لیے سخت مخالف تھی۔ لہٰذا انہوں نے مصر کو اپنا دوسرا گھر بنالیا۔
مصر میں قیام کے دوران وہ عربی زبان اور عرب فکری دنیا سے گہری واقفیت حاصل کر گئے اور عرب دنیا کے بڑے ادبی رسائل الثقافہ، الرسالہ اور الهلال میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ ان رسائل میں طہ حسین، عباس محمود العقاد، احمد امین، احمد زکی اور دیگر عظیم مصنفین لکھتے تھے۔ وہ اکثر ان مصنفین کے قریبی دوست بھی تھے۔
امریکا کی طرف ہجرت
1949 میں وہبی اسماعیل حقی کو امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں مقیم آلبانیائی مسلمانوں کی انجمن نے دعوت دی۔ وہ وہاں منتقل ہوگئے اور امریکا میں پہلا آلبانیائی مسجد اور ثقافتی مرکز قائم کرنے کی کوششوں میں شامل رہے۔
البانوی میں قرآنی ترجمہ ایک اہم امتحان
عربی سے آلبانیائی اور آلبانیائی سے عربی میں مسلسل ترجمہ کرنے کے طویل تجربے کے بعد وہبی اسماعیل نے قرآن کریم کو آلبانیائی زبان میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
آلبانیائی علماء، دنیا کے دیگر مسلم علماء کی طرح، روایتی طور پر قرآن کے ترجمے کی مخالفت کرتے رہے تھے، کیونکہ روزمرہ عبادات کے لیے قرآن کو عربی میں پڑھنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔
آلبانیہ کے 1912 میں آزاد ہونے کے بعد، قومی تحریک کے رہنما آئی۔ قفززی نے قرآن کا آلبانیائی ترجمہ انگریزی سے کرنے کا آغاز کیا اور 1921 میں اس کا پہلا حصہ شائع کیا۔
وہبی اسماعیل کا ترجمہ
وہبی اسماعیل نے 1950 میں رسالہ "زندگی مسلمانان آلبانیایی" میں قرآن کی چند سورتیں جیسے الفاتحہ، البقرہ، حجرات اور فرقان شائع کرنا شروع کیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ بعد میں انہوں نے پورے قرآن کا ترجمہ مکمل کر لیا۔
لیکن بدقسمتی سے، عرب ممالک کے فنڈنگ دورے کے دوران ان کا بیگ ، جس میں ترجمے کی پوری نقل موجود تھی، گم ہو گیا۔ وہ مہینوں انتظار کرتے رہے، مگر یہ قیمتی نسخہ نہ مل سکا۔
پہلا مکمل ترجمہ 1985 میں شائع ہوا
انہوں نے اپنی عمر رسیدگی کے باعث نئی ترجمانی نہ کر پانے کا اعتراف کیا اور اپنے دوست فتاح مہدیو (Fathi Mehdiu) کو اس کام کی ذمہ داری دی۔ مہدیو نے یوگوسلاویہ کے سخت کمیونسٹ دور میں قرآن کا آلبانیائی ترجمہ مکمل کیا، جب آلبانیہ میں گھروں میں قرآن رکھنے پر بھی قید کی سزا دی جاتی تھی۔
بالآخر 1985 میں پریشتینا میں قرآن کریم کا عربی سے آلبانیائی زبان میں پہلا مکمل ترجمہ شائع ہوا۔
وہبی اسماعیل حقی اس ترجمے سے مطمئن تھے اور اسے امریکا و کینیڈا میں متعارف کراتے رہے۔ 1986 میں استنبول میں ہونے والے قرآن کے عالمی ترجمہ سیمینار میں بھی انہوں نے اسے پیش کیا۔/
4305152