
ایکنا نیوز، سی این این عربی نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی مفتی صالح الفوزان کے اُس پرانے فتویٰ کے بعد، مسلسل پیدا ہونے والے تنازعات اور سعودی مفتی کی اس فتویٰ کے پس منظر میں ، جس میں اس نے فرعونی عمارات کی زیارت کو حرام قرار دیا تھا، مصری وزارتِ اوقاف اپنی سرکاری ویب سائٹ پر کہا: قدیم مصریوں کو مجموعی طور پر کافر قرار دینا، قدیم مصری تہذیب کے خلاف ایک کھلی دشمنی پر مبنی تصور ہے، جسے بعض افراد جان بوجھ کر فروغ دیتے ہیں ، وہ لوگ جو اپنی شناخت میں ہر اُس چیز سے نفرت کرتے ہیں جو مصری ہونے کی علامت ہے، خاص طور پر اگر وہ قدیم مصری قوم کی عظمت اور تکریم سے متعلق ہو۔ ان بےایمان افراد نے جھوٹ اور بہتان کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ مصری قوم بت پرست تھی اور حضرت موسیٰ (ع) کی بعثت سے قبل توحید سے ناواقف تھی۔ حالانکہ علما کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ قدیم مصری، دیگر اقوام کی طرح، مؤمن اور غیر مؤمن دونوں اقسام کے لوگوں پر مشتمل تھے۔ قدیم مصریوں کو مجموعی طور پر بت پرست یا مشرک قرار دینا انتہائی جہالت ہے۔ بلکہ تاریخی و دینی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر نے عصرِ حجر (۵ تا ۶ ہزار سال قبل مسیح) ہی سے خالص توحید اور ایک قادر و قہار خدا پر ایمان کو پہچان لیا تھا۔
وزارت نے مزید کہا: یہاں ہم مختصراً چند دلائل پیش کرتے ہیں:
اولاً، یقینی طور پر ثابت ہے کہ مصر کی سرزمین پر بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے جنہوں نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ ان میں حضرت شیثؑ (فرزندِ آدمؑ)، حضرت ادریسؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت یوسفؑ، ان کے والد حضرت یعقوبؑ اور ان کے بارہ بھائی، حضرت ایوبؑ، حضرت ذوالقرنینؑ، حضرت خضرؑ اور حضرت لقمانؑ (سلام الله علیهم اجمعین) شامل ہیں۔ ان کے ادوار میں مختلف تہذیبیں وجود میں آئیں اور توحید کی دعوت جاری رہی۔
ان انبیاء کی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر دور میں مصر میں توحید کی روشنی موجود تھی۔
اس حقیقت کا انکار قرآنی نصوص کے انکار کے مترادف ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو’ (سورۃ فاطر: ۲۴)
اور فرمایا: اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہوا ہے’ (سورۃ یونس: ۴۷)۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی عظیم الشان تہذیب جو ہزاروں برسوں پر محیط ہے، وہ شرک و کفر پر قائم رہی ہو اور اس کے درمیان کوئی بشیر و نذیر موجود نہ ہو؟
وزارتِ اوقاف نے مزید لکھا: دوم، انبیاء کی بڑی تعداد اور مصر کی سرزمین کا ان الہامی نور میں حصہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ توحید کی دعوت اس ملک میں جڑ پکڑ چکی تھی۔
بیان کے اختتام پر وزارتِ اوقاف نے کہا: قرآنِ مجید، دینی نصوص اور تاریخی مطالعات سے یہ بات واضح ہے کہ تمام قدیم مصریوں کو مشرک کہنا ایک غلط عمومی فیصلہ ہے۔ قدیم مصر میں توحید کے ماننے والے اور خداباور لوگ موجود تھے، اور بعض ادوار مثلاً آخناتون کے زمانے میں توحید کے واضح رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔
لہٰذا مصر ایک مکمل بت پرست سرزمین نہیں تھی، بلکہ اپنے ابتدائی زمانے سے ہی خداے واحد کی عبادت اور توحید کی دعوت سے آشنا تھی۔/
4315647