ایکنا نیوز- ایک اہم امر جو باعث بنتا ہے کہ معاشرے سے اعتماد کی فضا ختم ہوجائے اور معاشرہ ویرانی میں بدل جائے وہ دوسروں کے بارے میں برے گمان یا سوچ ہے۔
فطری بات ہے کہ انسان جسیا سوچتا ہے اسی طرح عمل کرتا ہے اور اس کا عمل اس کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے لہذا جو دوسروں کے بارے میں ہمیشہ نادرست سوچتا ہے اس کے حوالے سے غیرمنطقی رویہ ہی رکھتا ہے اور اس طرح سے اعتماد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم جو بعنوان آسمانی کتاب تمام انسانی ضروریات اور نکات سے باخبر ہے وہ انسان کو اس چیز سے روکتا ہے، خدا فرماتا ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ؛ اے جو ایمان لائے ہو! بہت سے برے گمان سے بچے رہو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہے»(حجرات: 12)
اس آیت میں واضح طور پر بدگمانی سے روکا گیا ہے کیونکہ بدگمانی غیبت کا پیش خیمہ ہے اور یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں «كثيراً من الظن» (بہت سے گمان) کی بات کی گیی ہے؟ اس وجہ سے کہ بہت سے گمان ایکدوسرے کے بارے میں گناہ یا نادرست ہوتا ہے۔
برے گمان کی دو قسمیں ہیں؛ کچھ واقعیت پر مبنی ہے اور بعض واقعیت کے خلاف. جو واقعیت کے خلاف ہے وہ گناہ ہے، اور کیونکہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا گمان واقعیت پر مبنی اور کونسا مخالف ہے لہذا ان گمانوں سے ہی دور رہنے پر تاکید کی گیی ہے۔
ایک اور آیت میں خدا گمان بد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا کے بارے میں برے گمان سے دور رہو: «وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ؛ (نیز)مرد اور عورت منافق اور مشرک مرد و عورت کو جو خدا بارے برے گمان رکھتے ہیں سزا ہوگی؛»(فتح: 6)
برے گمان جو خدا بارے ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا رسول گرامی سے کیا گیا وعدہ عمل پذیر نہ ہوگا اور مسلمان دشمنوں پر غلبہ نہ پائے گا اور مسلمان کسی صورت مدینہ واپس نہ لوٹے گا جسطرح سے مشرکین سوچتے تھے کہ رسول گرامی اور انکے دوستوں کی تعداد کم ہے اور کم اسلحے کی وجہ سے
وہ مارا جائے گا اور شکست سے دوچار ہوگی حالانکہ خدا نے نصرت کا وعدہ کیا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی۔
لہذا منافقین اور مشرکین برے گمان سے دوچار تھے در حالیکہ مومنین کا دل اچھے گمان سے لبریز تھا کیونکہ منافقین ظاہری حالات کو دیکھتے ہیں جب کہ مومنین خدا اور باطن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
خلاصہ قرآن مجید برے گمان کی شدید مذمت کرتا ہے اور دردناک عذاب کا وعدہ دیتا ہے۔/