ایکنا نیوز کے مطابق الجزیرہ نیوز اپنی رپورٹ میں کہتا ہے" قرآن کا گول ہونا قرآنی کے علمی معجزوں میں سے ہے" قرآن میں متعدد آیات زمین کے گول ہونے پر تاکید کرتی ہیں۔
اس رپورٹ میں لکھا ہے: ماہرین فلکیات نے کافی تحقیق اور مطالعے کے بعد اس حقیقت پر پہنچے کہ زمین گول ہے تاہم قرآن نے 1400 سال قبل اس حقیقت کو بتادیا اور اگر زمین چپٹی ہوتی تو زندگی پر اس جاری نہ رہ سکتی۔
قرآن کریم میں اس موضوع کو کئی بار اٹھایا گیا ہے مثال کے طور پر سورہ غاشیہ آیت 20 میں کہاجاتا ہے «وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ: اور زمین کو کسطرح سے پھیلائی گیی ہے». کلمه «سطحت» یعنی زمین لوگوں کے لیے بچھائی گیی ہے۔
اسی طرح آیت 40 سوره یاسین میں کہا جاتا ہے: «لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ: نه سورج چاند ت پہنچ سکتا ہے اور نہ رات دن پر پیشی لے سکتی ہے اور پر کوئی مدار پر رواں ہے».
یہ ان لوگوں کے مقابل کہا جاتا ہے جو کہتے تھے کہ دن کا آغاز روشنی سے ہوتا ہے اور اس کے خاتمے پر رات آتی ہے، خدا ان سے فرماتا ہے:
، دن رات سے یا رات دن سے پیشگی نہیں لیتی، پس خدا ان سے فرماتا ہے
دن رات سے قبل نہیں آتا اور رات دن سے قبل پیشی نہیں لیتی بلکہ دنوں یکجا موجود ہیں.
پھر رب العزت آیت 5 سوره زمر میں کہتا ہے: «خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَ يُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ:
آسمان و زمین کو حق کے ساتھ خلق کیا گیا ہے رات کو دن پر لپٹی جاتی ہے دن کو رات پر ۔یہ مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
كلمه «تكوير» لپیٹنے کے معنی میں بتایا جاتا ہے، ابن جریر طبری اس آیت کے تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خدا رات کو دن پر لپیٹ دیتا ہے ./