مقاومتی بلاک کو تقسیم کرنے کی صہیونی قابل مذمت سازش

IQNA

عراقی تجزیہ کار؛

مقاومتی بلاک کو تقسیم کرنے کی صہیونی قابل مذمت سازش

8:44 - December 08, 2024
خبر کا کوڈ: 3517595
ایکنا: علی ناصر کا کہنا تھا کہ صہیونی رژیم چاہتا ہے کہ عراق، شام اور لبنان میں مقاومت کو الگ کیا جائے تاہم مقاومتی بلاک طاقتور ہے اور دشمن کا ناکام بناسکتا ہے۔

ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، لبنان میں جنگ بندی کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ صہیونی عناصر نے ایک اور وحشیانہ جارحیت شروع کی، جس میں گمراہ تکفیریوں کو شام میں استعمال کیا گیا۔ یہ سب اس حقیقت کے بعد سامنے آیا کہ لبنان پر حملے میں صہیونی اور امریکی اتحاد کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے بعد، انہوں نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی، جس کے تحت تکفیری گروہوں کو مشرق وسطیٰ، خصوصاً شام میں جنگ کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ مزاحمتی محاذ کو دوسری جگہوں پر مصروف رکھا جا سکے۔

مشرق وسطیٰ میں موجودہ غیر مستحکم صورتحال کسی بھی وقت نئی اور غیر متوقع تبدیلیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ ایکنا نے ان حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے عراقی تجزیہ کار علی ناصر سے گفتگو کی۔

شام کی صورتحال اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں علی ناصر نے شام میں حالیہ حالات اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے صہیونی رژیم کی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں نے شروع کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقائی طاقتیں، جیسے ترکی، ان حملوں کو شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بہانہ بنا رہی ہیں، جبکہ بین الاقوامی طاقتیں، خصوصاً امریکہ، خطے پر قبضے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کے جنوب میں جنگ بندی کے بعد، صہیونی مفادات کی خدمت کے لیے عراق، شام، لبنان اور یمن میں مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ مزاحمتی گروہوں کے ڈرونز اور میزائل حملوں نے تل ابیب تک کو نشانہ بنایا اور صہیونی وزیر اعظم کے گھر اور بن گوریون ایئرپورٹ تک پہنچے۔

عرب اور اسلامی ممالک کی ذمہ داری انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں عرب اور اسلامی ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان جھڑپوں کے قریبی علاقوں کی حفاظت کریں، خاص طور پر عراق کو اس معاملے میں شام کی صورتحال پر مداخلت کرنی چاہیے کیونکہ شام میں ہونے والے واقعات عراق پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ناصر نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو اس "ناپاک منصوبے" کو ناکام بنانا چاہیے، جو دہشت گردوں کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔

مزاحمتی محاذ کی حمایت کی اہمیت علی ناصر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مزاحمتی محاذ کی حمایت بے حد اہم ہے۔ صہیونی رژیم جان بوجھ کر خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے اور لبنان کے جنوب میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اس لیے مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنانے اور شام و لبنان کو انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

رسانہ اور میڈیا کی اہمیت انہوں نے میڈیا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صہیونی حمایتی دہشت گرد گروہ جھوٹ پر مبنی خبروں کو پھیلانے کے لیے مشکوک میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض عربی میڈیا صہیونی رژیم کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور خطے کے بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ ناصر نے آخر میں کہا کہ حقیقی اور مثبت میڈیا کا فرض ہے کہ امن کا پیغام عام کرے اور میدان کی حقیقت کو درست طور پر بیان کرے، برخلاف ان میڈیا اداروں کے جو صہیونی رژیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔/

 

4252190

نظرات بینندگان
captcha