ایکنا نیوز، "اسلام ویب" نیوز نے اپنے ایک مضمون میں برصغیر کے معروف مسلم مفکر، محقق عبدالحمید الفراہی کی علمی، ادبی اور قرآنی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
عبدالحمید الفراہی ایک نمایاں شخصیت ہیں جنہیں برصغیر میں چند ماہرین ہی جانتے ہیں، حالانکہ انہوں نے عربی اسلامی ثقافت، خصوصاً قرآن اور علومِ قرآنی کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
شیخ حمید الدین عبدالحمید بن عبدالمحسن الانصاری الفراہی 1280 ہجری قمری (1863 عیسوی) میں اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں فرہا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں قرآن حفظ کیا اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ 16 سال کی عمر میں فارسی اشعار کہنے لگے۔
انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی، شبلی نعمانی (1274-1332ھ/ 1858-1914م)، جو ایک مورخ اور ادیب تھے، سے عربی زبان سیکھی۔ انہوں نے اسلامی علوم کی تعلیم شیخ ابوالحسنات محمد عبدالحی لکھنوی (1264-1304ھ/ 1848-1887م) اور دیگر علماء سے حاصل کی۔ بعدازاں وہ لکھنؤ گئے، جو علم کا مرکز کہلاتا تھا، اور شیخ ابوالحسن سہارنپوری کے حلقہ درس میں شریک ہوئے۔
الفراہی نے تمام جاہلی شعری دیوانوں کا مطالعہ کیا، ان کے پیچیدہ نکات کو حل کیا، اور جاہلی طرز پر قصائد کہے۔ 20 سال کی عمر میں انہوں نے انگریزی زبان سیکھی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے جدید فلسفے میں ڈگری حاصل کی۔
الفراہی نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ قرآن اور علومِ قرآنی کے مطالعے میں گزارا۔ وہ ان پہلوؤں پر تحقیق کرتے رہے جنہیں دیگر علماء نے نظر انداز کیا تھا۔ انہوں نے 19 جمادی الثانی 1349ھ (11 نومبر 1930ء) کو اترپردیش کے شہر متھرا میں وفات پائی۔
الفراہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عربی زبان کے استاد مقرر ہوئے، جہاں ان کے شاگردوں میں مشہور جرمن مستشرق یوسف ہارویز شامل تھے، جنہوں نے ان سے عربی سیکھی جبکہ الفراہی نے ان سے عبرانی زبان سیکھی۔ بعد ازاں وہ الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور پھر دارالعلوم نظامیہ، حیدرآباد کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ جامعہ عثمانیہ کے بانی تھے، جو اپنے جدید تعلیمی نظام کے لیے مشہور ہے۔
الفراہی کی علمی خدمات میں تقریباً 50 کتابیں شامل ہیں، جن میں سے 20 شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی تصانیف کا اہم موضوع قرآن اور اس کی تفسیر ہے۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں اشعار بھی کہے۔
مشہور تفاسیر:
علومِ قرآنی پر تصانیف:
الفراہی نے قرآن کے فہم کے لیے ایک نیا اصولی نظام پیش کیا، جسے "علمِ نظام" کہا جاتا ہے۔ یہ نظام قرآن کی بلاغت اور اسرار کو سمجھنے کے لیے محققین کے لیے ایک نیا دروازہ کھولتا ہے۔
انہوں نے اپنی تصانیف عربی میں لکھیں تاکہ ان کے کام کی علمی اور تاریخی اہمیت برقرار رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں چاہتا ہوں کہ میری کتابیں دائمی ہوں۔"
4244401