ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، 43ویں فجرفلم فیسٹیول کے دوران فلم "موسی کلیمالله" کے موضوع پر سوال جواب کی نشست برج میلاد میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں ابراہیم حاتمیکیا ( فلمساز)، سید محمود رضوی (پروڈیوسر)، فلم کے اداکاروں اور دیگر ٹیم ممبران نے شرکت کی۔
ایکنا کے نامہ نگار کے سوال پر کہ فلم کے تاریخی حوالوں کی بنیاد کیا ہے؟ ابراہیم حاتمیکیا نے وضاحت کی: "میں اپنی جنگی اور سماجی فلموں کی وضاحت دے سکتا ہوں، لیکن اس فلم کے بارے میں دو محققین زیادہ بہتر جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ ان کی تحقیق کا سلسلہ فرجالله سلحشور کے اسکرپٹ لکھنے کے وقت سے جاری تھا۔ تاہم، میں ایک بات واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کہانی کی بنیاد "قرآن" ہے، اور اس کے ساتھ دیگر تاریخی ذرائع سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔"
حاتمیکیا نے مزید کہا: "میں ہمیشہ چاہتا ہوں کہ جو فلم بناؤں، وہ اپنے زمانے کی روح سے ہم آہنگ ہو، خواہ وہ جنگی فلم ہو یا کسی اور موضوع پر۔ حضرت موسیٰ (ع) کی کہانی کا ایک اہم پہلو "انتظار" کا مفہوم بھی ہے۔ اگر میں یہ عنصر تلاش نہ کر پاتا، تو شاید کہانی کو درست طریقے سے آگے نہ بڑھا سکتا۔"
حاتمیکیا سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فلم میں ایک خاتون پر وحی کا نزول دکھایا گیا، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا: "یہ میرا ذاتی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ قرآن میں اس کا واضح ذکر ہے کہ اللہ نے ایک خاتون پر وحی نازل کی، اور میں نے صرف اسے بصری شکل دی ہے۔"
فلم کے تاریخی محقق مصطفوی نے ایکنا کے رپورٹر کو بتایا: "ہم انبیاء کو معصوم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کے تمام اعمال اور اقوال وحی الٰہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس فلم میں حضرت موسیٰ (ع) کو محض ایک ہیرو کے طور پر نہیں، بلکہ خدا کے برگزیدہ پیغمبر کے طور پر دکھایا گیا ہے، اور ان کے تمام اعمال وحی الٰہی سے ماخوذ ہیں۔ ہم نے اس فلم پر وسیع تحقیق کی، اور یہ کام ہم نے 2009 (1388 ہجری شمسی) میں فرجالله سلحشور کے ساتھ مل کر شروع کیا، جو فلم کے پہلے ڈائریکٹر تھے، لیکن دورانِ فلم سازی ان کا انتقال ہو گیا۔"
4264460