ایکنا نیوز- ہر مذہب کے اپنے فقہی اصول، اعتقادی مبانی اور شرعی احکام ہیں، لہٰذا تقریبِ مذاہب جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں، ممکن نہیں، بلکہ مختلف مذاہب کے درمیان پُرامن ہم زیستی قائم ہونی چاہیے۔
شخصیت اور خدمات
سید محمد علی بحرالعلوم، عراق کی ممتاز دینی، فکری اور سماجی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور نجف اشرف کے علمی و معروف خاندان آل بحرالعلوم سے تعلق رکھتے تھے، جس نے صدیوں سے بڑے بڑے مراجع اور علما پیش کیے ہیں۔ وہ حوزہ علمیہ نجف کے نمایاں اساتذہ میں شامل اور حجتالاسلام والمسلمین محمد بحرالعلوم کے فرزند تھے۔ انہوں نے دینی، سماجی اور فکری میدانوں میں وسیع خدمات انجام دیں اور ثقافتی و سیاسی محافل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے وہ نہ صرف حوزہ علمیہ بلکہ عراقی معاشرے میں بھی بلند مقام رکھتے تھے۔
وفات اور تشییع
وہ اس ہفتے کو کویت میں انتقال کر گئے اور نجف اشرف میں بینالحرمین کے علاقے میں سرکاری و عوامی سطح پر ان کا جنازہ پڑھایا گیا اور تدفین عمل میں آئی۔
انٹرویو کے اہم نکات (۱۴۰۱)
ہفتہ وحدت کے موقع پر، جو شیعہ و سنی اور تمام اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کا موقع ہے، ایکنا ان کے پرانے انٹرویو پر روشنی ڈال رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا:
ناآگاهی اور ایک دوسرے کے عقائد سے عدم واقفیت، غلط فہمی اور تفرقے کا باعث بنتی ہے۔
امتِ اسلامی کی کمزوری بیرونی اور اندرونی عوامل کی وجہ سے ہے۔ بیرونی عوامل میں بڑی استعماری طاقتیں شامل ہیں جو اسلامی ممالک پر مسلط ہیں، جبکہ اندرونی عوامل میں صدیوں پر محیط علمی کمزوری اور ایسے حکمرانوں کا غلبہ شامل ہے جو علم، ترقی اور حقیقی اسلامی اصولوں کے مخالف رہے۔
بڑی طاقتوں کی جانب سے اسلامی علاقوں کی دولت و وسائل پر قبضہ کرنے کی سازشیں بھی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
لزومِ شناخت اور علمی تبادلہ
انہوں نے کہا کہ تقریب مذاہب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کا جائزہ لیں۔ سو سال پہلے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ مختلف مذاہب، خصوصاً اہل سنت، شیعہ امامیہ کے اصول و مبانی سے ناواقف تھے۔ اسی بنا پر شیعہ علما نے گزشتہ صدی کے وسط میں وسیع پیمانے پر شیعہ آثار شائع کرنے کا آغاز کیا۔ آیتالله بروجردی اور سید محسن حکیم نے ۵۰ اور ۶۰ کی دہائی میں امامیہ فقہ اور کتب کی اشاعت کا کام کیا۔
بقائے باہمی کا حقیقی مفہوم
انہوں نے زور دے کر کہا: آج ہمیں تقریب سے زیادہ پُرامن ہم زیستی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے دوسرے کو قبول کرنا، گفتوگو کے دروازے کھولنا، ایک دوسرے کے نظریات اور مطالبات کو تسلیم کرنا، اور سب سے بڑھ کر تکفیر و قتل و غارت سے پرہیز کرنا۔ یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے مختلف مذاہب ایک بہتر زندگی اور روشن مستقبل کے لیے مل جل کر تعاون کر سکتے ہیں۔/
4301738