بین الاقوامی قرآن نیوز ایجنسی (ایکنا) کے زیر اہتمام "۱۵ صدیاں، پیامبرِ نور و رحمت کی اقتدا" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی ویبینار بروز منگل، کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پندرہ سوویں یومِ ولادت اور ہفتۂ وحدت کے موقع پر منعقد ہوا۔
ویبینار کے موضوعات میں شامل تھے:
قرآن و احادیث کی روشنی میں رسول اکرمؐ کی آفاقی رسالت
سیرتِ نبوی میں تساہل، تسامح اور رواداری
نبی اکرمؐ تمام ادوار کے لیے بہترین اسوہ
سیرتِ نبوی اور دینی شناخت کی بازشناسی
اسلام کی جاودانگی اور امتِ واحدہ، مغربی گلوبلائزیشن کے مقابل
اس ویبینار میں حجت الاسلام والمسلمین سید حسین خادمیان نوش آبادی، استادِ حوزہ و جامعہ، مبین ایکنا اسٹوڈیو کے مہمان کے طور پر موجود تھے جبکہ دنیا کے مختلف ممالک سے علما اور دانشوران نے آن لائن شرکت کی۔
مقررین میں شامل تھے:
آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی، مراجع عظام تقلید (نجف اشرف)
ڈاکٹر خوان کول، پروفیسر تاریخ یونیورسٹی آف مشی گن اور کتاب "محمد: پیغمبر صلح ، شہنشاوں کی جنگ میں" کے مصنف
حجت الاسلام والمسلمین یحییٰ جہانگیری، مدرس حوزہ و جامعہ اور قم میں اسلامی کلچر اینڈ ریلیشنز آرگنائزیشن کے نمائندہ (انگریزی میں)
ڈاکٹر عبدالسلام قوی، پروفیسر جامعہ الازہر مصر
شیخ یوسف غازی حنینه، صدر تجمع علمای مسلمان (لبنان)
عبدالسلام قوی (جامعہ الازہر، مصر) کی تقریر کا خلاصہ: الحمد للہ رب العالمین، درود و سلام ہو ہمارے سردار محمدؐ پر اور آپؐ کے اہل بیت و صحابہ پر۔ محترم ناظرین! اللہ کی رحمت آپ پر ہو۔ ہم ان مبارک ایام میں ہیں جن میں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد کا جشن مناتے ہیں۔ میری گفتگو کتابِ الٰہی سے شروع ہوتی ہے اور سنت و سیرتِ نبوی سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ آج کے دور میں امت اسلامیہ کو کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ آج امت دشمنوں کے اندرونی اور بیرونی حملوں میں گھری ہوئی ہے، دوست اور دشمن، قریب و بعید سب نے اس امت پر یورش کر رکھی ہے۔ حسبنا الله ونعم الوکیل۔
یومِ میلاد ایسے وقت میں آ رہا ہے جب امتِ اسلام زخموں اور دردوں سے چور ہے اور فریاد بلند کرتی ہے مگر کوئی جواب دینے والا نہیں۔
یہ تلخ حقیقت سوال پیدا کرتی ہے: اگر آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تو کیا فرماتے؟ اگر وہ آج غزہ اور فلسطین میں جاری حالات دیکھتے؟ اگر وہ مسلمانوں کی حالت کو دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھتے تو کیا کہتے؟
میں کہتا ہوں، ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی ہمارے درمیان ہیں۔ وہ ہماری حالت کو دیکھتے ہیں، ہماری رسوائی اور ناکامی کو جانتے ہیں، حکمرانوں کی خیانت کو دیکھتے ہیں، اُن شیوخ اور خودفروختہ حکام کو پہچانتے ہیں جنہوں نے دین اور آخرت کو دنیا کے کھیل تماشوں پر قربان کر دیا۔
یہی وہ نکتہ آغاز ہے جس سے ہمیں اپنی اصلاح شروع کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر زمانے کے لیے اسوہ اور نمونہ بنایا ہے، جیسا کہ فرمایا: "یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور روزِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے" (احزاب/۲۱)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر دور کے لیے نمونہ ہیں۔ آپؐ نہ صرف اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے بلکہ ایک زاہد، عابد، حلیم و بردبار بندے، ایک دانا سیاستدان، ایک منفرد رہبر اور ایک عظیم مجاہد و سپہ سالار بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی شخصیت میں امت کی تمام ضروریات کو جمع کیا۔
لہٰذا کوئی عذر باقی نہیں رہتا: "واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا" (آل عمران/۱۰۳)۔ "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبانِ امر (اہل بیتؑ) کی اطاعت کرو" (نساء/۵۹)۔
افسوس! آج بہت سے لوگ حکمرانوں کو خدا کے برابر کر دیتے ہیں، انہیں "ظلّ اللہ" کہہ کر مقامِ الوہیت تک بلند کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اطاعت صرف خدا اور رسولؐ اور ان کے حقیقی اولوالامر کی ہونی چاہیے۔
میرے عزیزو! آج امت اسلام پر جو کچھ گزر رہا ہے، وہ ہمارے لیے اتمام حجت ہے۔/
4302616